یہ کائنات لاکھوں سال پرانی ہے اور یہاں آبادی اور پھر بربادی کا ایک نظام ہے جو کہ چلا آرہا ہے۔ آج جو ہم خود کو اتنا طاقتور سمجھتے ہیں اور اپنی ترقی پر ناز کرتے ہیں تو اگر ماضی میں دیکھا جائے تو کچھ ایسی اقوام گزری ہیں کہ جنہوں نے ایسی تعمیرات کی جو ہم آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بنانے کے نہ تو وسائل رکھتے ہیں اور نہ ہی ایسا کچھ سوچ سکتے ہیں ان میں سب سے بڑی مثال اہرام مصر کی ہے۔ یہ کیسے تعمیر ہوئے اور ان کی تعمیر میں کتنی طاقت صرف ہوئی ہو گی ہم آج صرف اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دنیا آج سے پہلے کئی دفعہ ترقی کے دور دیکھ چکی ہے اور کئی دفعہ تباہی کے مناظر بھی ، جس کے بعد انسان پھر صفر سے محنت شروع کر دیتا ہے اور دوبارہ ایسی ترقی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو پتھر کے دور سے اس ترقی تک کے سفر میں بنیادی چیز تعلیم اور شعور ہے۔ جوں جوں انسان تعلیم اور تحقیق سے رشتہ جوڑتا ہے وہ نئی منزلوں کو چھوتا جاتا ہے اور تعلیم صرف ایک انسان نہیں بلکہ نسلوں اور تہذیبوں کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ اہل یونان ، رومی ، ایرانی اور ان کے بعد مسلمانوں نے جب دنیا میں ترقی کی تو اس میں جہاں جنگی فتوخات نے علاقوں کو مسخر کیا وہیں اسلامی تعلیمات اور دیگر فنون کی ترویج ان علاقوں میں اسلام کے پھیلاؤ کا باعث بنی۔ مسلمان جب ان سے دور ہوئے اور یورپ نے ان تعلیمات کو اپنا لیا تو مسلمانوں کا جو حال ہے وہ ہمارے سامنے ہے اور اہل یورپ آج جس عروج پر ہیں وہ بھی بے مثال ہے۔برصغیر میں بھی کافی ترقی ہوئی ہے جس میں لینڈ سکیپنگ کافی زیادہ ہے۔ ترقیاتی کام بیشمار ہوئے ہیں آج دیکھا جائے تو پاکستان میں موٹرویز کا جال پھیلا ہوا ہے اور مواصلات کا نظام بھی بہت اعلی ہے وہیں اس کے برعکس پاکستان کے ساتھ ہی آزادی حاصل کرنے والے بھارت اور بالحضوص چین نے اپنے لوگوں کی تعلیم پر زور دیا جس کے باعث آج پوری دنیا میں ان کے لوگ ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ انجینئر ، ڈاکٹر اور آئی ٹی ماہرین کی سب سے بڑی تعداد جو بیرون ملک کام کر رہی ہے وہ بھار ت کی ہے جس کی وجہ سے آج گوگل، نیٹ فلیکں اور دیگر عالمی کمپنیاں بھارت میں اپنے مراکز قائم کر کے وہاں کے لوگوں کی روز گار فراہم رہی ہیں اور بڑی تعداد میں جدید ٹیکنالوجی بھی بھارت میں منتقل کر رہے ہیں۔ چین کی صنعتی ترقی آج پوری دنیا سے آگے ہے ۔ چین کے انجینئرز اور ماہرین روز بروز نئی اشیاء مارکیٹ میں لے کر آرہے ہیں اور دنیا میں آپ کسی بھی ملک میں چلے جائیں آپ کو ہر جگہ چینی اشیاء فروخت کے لئے نظر آ ئیں گی۔اس ساری ترقی کے پیچھے دیکھا جائے تو ان دونوں ممالک کے نظام تعلیم کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ دونوں ممالک اس معاملے میں بہت ہی فوکسڈ ہیں اور وہ اپنی نوجوان نسل کو کارآمد اور جدید تحقیق پر مبنی تعلیم دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عملی یا ایسی تعلیم جو ااگے جا کر ہنر اور روزگار فراہم کرے کو زیادہ عام کیا گیا ہے ۔اس کی نسبت ہم آج تک صرف روایتی نظام تعلیم ہی کو چلاتے آئے ۔ آج بھی زیادہ تر اداروں میں جہاں ٹیکنیکل اور ماہر لوگوں کو ہونا چاہیے ان کی جگہ بی اے اور ایم اے سے کام چلایا جا رہا ہے۔ ابھی حالیہ بارشوں میں کراچی کا جو حال ہو رہا ہے اس کے بعد بھی ہم میں کوئی اس بات پر توجہ نہیں دے رہا کہ اب ہماری یونیوسٹیوں میں اربن اور ٹاؤن پلاننگ پڑھانے کی ضرورت ہے۔ہر بڑے منصوبے میں چینی اور دیگر ممالک کے انجینئرز کو بھرتی کرنے کی بجائے اب ضرورت ہے کہ ہم اپنی یونیورسٹیوں میں یہ مضامین پر خود ریسرچ کریں۔ اب بھلا ہو شفقت محمود کا کہ کئی سالوں سے ملک میں یکساں نصاب نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی تھی اور بالآخر اب اگلے سال سے پرائمری تک تمام ملک میں ایک نصاب ہو گا۔ اس حوالے سے یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ اس نصاب میں شامل تمام مواد نیا ہے اور اس پر کافی تحقیق کے بعد یہ سب کچھ اس میں شامل کیا گیا ہے ۔اب امید رکھنی چاہیے کے ان شاء اللہ اگلے سالوں مڈل، میٹر ک اور کالجوں ، یونیورسٹیوں میں بھی یہ یکساں نصاب رائج ہو گا اور اس میں نئے علوم کو بھی شامل کیا جائے گا ۔ سائنسی اور تکنیکی تحقیق کو ترویج دی جائے گی جس سے ہم بھی ایسے ماہرین پیدا کر سکیں گے جو کے بین الاقوامی اداروں کو چلا سکیں اور پاکستان کا نام روشن کریں۔ یکساں نصاب کے آنے سے بول چال اور ایک دوسرے کو سمجھنے میں بھی آسانی ہو گی اور ہماری آنے والی نسلوں میں صوبائی تعصب کم سے کم ہو گا اور ان میں ایک دوسرے کو سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہو گی۔ دیکھنے میں بظاہر چھوٹا سا کام مگر اس کے ثمرات بہت دور رس ہوں گے۔اس کے رائج ہونے سے غریب کا بچہ جو عام سرکاری سکول میں پڑھتا ہے اور مدرسے میں پڑھنے والا بچہ بھی مستقبل میں مقابلے کے امتحان میں برابری سے شامل ہو گا اور اس نظام کا حصہ بنے گا۔ اللہ کرے کے شفقت محمود جس عزم اور حوصلے کو لے کر چلے ہیں وہ ہمارے چاروں صوبوں کے لوگوں کو ایک قوم بنانے میں کامیاب ہو جائیں اور ہمارے تعلیمی نظام کو اس قابل کر دیں کے ہم آنے والے دور میں دنیا کا مقابلہ کر سکیں۔ آمین
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024