لبیک اللہم لبیک لا شریک لبیک ان الحمد والنعمت لک والملک لا شریک لک کی صدائیں ہیں بیت اللہ میں خطبہ حج ہوا ہے۔ اس سال حج کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کے باعث محدود پیمانے پر ہوا ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ ہونے والا سارا نقصان ایک طرف لیکن اس جان لیوا وائرس کی وجہ سے جو ہماری مذہبی آزادی چھنی ہے اس کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ ہم کئی ماہ سے اپنی مساجد کی رونقوں میں کمی دیکھ رہے ہیں ہم نے رمضان المبارک انہی پابندیوں میں گذارا ہے اور اب حج کے موقع پر بھی دنیا بھر کے مسلمان اس اہم مذہبی فریضے کو ادا کرنے سے محروم رہے ہیں۔ ہمارے لیے اس سے بڑھ کر کوئی نقصان نہیں ہے کہ ہم اللہ کے گھر حاضری کے قابل نہیں رہے، ہم مسجد نبوی جا کر دورد پاک پڑھنے سے محروم ہو گئے، ہم اللہ کے گھر سجدوں سے محروم ہو گئے، ہم عبادت کی نعمت سے محروم ہو گئے۔ اس سال حج ادا نہ کرنے والوں کو دوبارہ یہ موقع کب ملے کوئی نہیں جانتا لیکن لاکھوں لوگ بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی میں عبادات سے محروم رہے ہیں۔ یوں اس سال کا رمضان المبارک اور ذی الحج ہمیں بہت بڑا سبق دے کر جا رہا ہے۔ ہم جو ہر وقت ایک دوسرے کے گلے کاٹنے، مال بنانے، دولت جمع کرنے دوسروں کا حق کھانے، ظلم کرنے میں مصروف تھے اس دنیا میں اتنے مگن ہو گئے کہ درست غلط کی تمیز بھول گئے حلال و حرام کا فرق بھلا بیٹھے اس دوڑ میں ہمیں معافی کا موقع نہ ملے استعفار کے بغیر ہم دنیا سے چلے جائیں تو ہمارا کیا بنے گا۔ کرونا کی وجہ سے ہم اللہ کے حضور پیش ہونے سے محروم رہ گئے اسی حالت میں دنیا سے چلے گئے تو واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اللہ کی رحمت ہی کام آ سکتی ہے۔ عبادت ہی ہمارے لیے نجات کا راستہ ہے۔ مسجد نمرا سے شیخ عبداللہ بن سلیمان نے خطبہ حج میں کہا ہے کہ دنیا پر مشکلات اللہ کی طرف سے امتحان ہے اور عبادات سے ہی مصیبت سے چھٹکارا ملتا ہے۔ اللہ کے حکم سے مصیبتیں آتی اور دور ہوتی ہیں مشکلات دائمی نہیں اللہ کا فرمان ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کے لیے مشکل نہیں آسانی چاہتا ہے۔
ان تمام مسائل پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ ان مشکلات کی وجہ ہم خود ہیں۔ شیخ عبداللہ بن سلیمان نے خطبہ حج میں فرمایا ہے کہ اللہ انسان کے لیے مشکل نہیں آسانی چاہتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ تمہارے اوپر آنے والی مصیبتیں تمہارے ہاتھوں کا کیا دھرا ہیں۔ اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ انصاف کرو بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ خطبہ حج میں شیخ عبداللہ بن سلیمان نے کہا ہے کہ قرآن مجید میں عدل و انصاف کا درس دیا گیا ہے۔ کیا ہم انصاف کرتے ہیں ہم دوسروں سے انصاف تو دور کی بات خود سے انصاف نہیں کرتے ہم اللہ کی عطاء کردہ صلاحیتوں سے انصاف نہیں کرتے۔ ہم تقسیم کے معاملے میں انصاف نہیں کرتے۔ آج معاشرے میں ناانصافی عروج پر ہے۔ اگر ہم مصائب و مشکلات سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ کے احکامات پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔ ان احکامات کو زندگیوں پر نافذ کرنا ہو گا۔ ہم قرآن کریم کا مطالعہ کریں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی سیرت طیبہ کو دیکھیں ہم ہر قدم پر قرآن کے احکامات اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم کے احکامات کی روگردانی کر رہے ہیں۔ اتنی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کے بعد بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو رہا ہے اور سب ٹھیک ہو جائے گا یہ سب تباہی و بربادی ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ یہ محدود حج ہمیں پیغام اور سبق دے رہا ہے کہ ہم واپس اپنی بنیاد پر آ جائیں، ہماری فلاح مال و دولت جمع نہیں بلکہ خرچ کرنے میں ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے متعلق قانون سازی پر حکومت اور قانون سازی میں مثبت کردار ادا کرنے والی اپوزیشن جماعتیں مبارکباد کی مستحق ہیں۔ ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لیے پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر قانون سازی میں حصہ لینا چاہیے۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اپوزیشن ساتھ نہ دیتی تو مشترکہ اجلاس سے بل منظور کروایا جا سکتا تھا۔ حکومت کو دل بڑا کرنا چاہیے۔ حکومت اپوزیشن کے ساتھ اپوزیشن نہ کرے۔ اپوزیشن نے جو کچھ اسپیکر کے گھر کیا ہے اگر کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا تھا تو اخلاقی طور پر اسے اسمبلی میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ حکومتوں کو مسائل کا سامنا رہتا ہے حزب اختلاف کی جماعتوں کے اپنے مسائل ہوتے ہیں لیکن حکومت کو ایسے معاملات میں دل بڑا کرنا چاہیے اگر حکومت سختی دکھاتی رہے گی تو مسائل بڑھتے رہیں گے۔ جہاں قومی سلامتی اور بنیادی اصولوں پر بات آئے وہاں سمجھوتا نہ کریں لیکن اس کے علاوہ دیگر معاملات میں حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے پر زور دینا چاہیے۔ اسمبلیوں میں عوام کے بنیادی مسائل کے حل پر زور دینا چاہیے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے معاملے پر مولانا فضل الرحمن کی جماعت کا رویہ خاصا منفی اور حیران کن رہا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمٰن کہتے ہیں کہ ہمارے موقف کو کیوں نہیں سنا جاتا کیا ہم دشمن ہیں۔ مولانا کو چاہیے کہ دوسروں سے پوچھنے کے بجائے اپنے اعمال اور فیصلوں پر غور کریں کوئی آپکو دشمن نہیں سمجھتا لیکن آپ پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے ہونے والی قانون سازی کا حصہ نہ بنیں اور صرف ذاتی مفادات اور اختلافات میں اپوزیشن پر بھی تنقید کریں تو کسی کو کیا ضرورت ہے کہ وہ آپکو دشمن کہے۔ جب آپ اس اہم قانون سازی پر اپوزیشن سے گلہ کریں کہ انہوں نے حکومت کا راستہ دیا ہے تو سب سمجھ آتی ہے کہ دشمنی کون کر رہا ہے یہ قانون سازی حکومت نہیں ملک کے لیے کی گئی تھی۔ شاید وہ چاہتے ہیں کہ یا تو افغانستان میں کوئی جنگ شروع ہو یا کہیں اور کوئی جگہ جنگ کا میدان لگے اور مولانا اس کی آڑ میں اپنا کاروبار چلائیں اب یہ ممکن نہیں رہا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی و نظریاتی کارکنوں میں آج ہم حفیظ اللہ نیازی کی خدمات پر روشنی ڈالیں گے۔ حفیظ اللہ نیازی کی پی ٹی آئی کے لیے بہت خدمات ہیں یہ وہ شخصیت ہیں جو عمران خان کے نظریے پر برسوں ان کے ساتھ چلتے رہے۔ پی ٹی آئی کو کھڑا کرنے میں ہر وقت مصروف رہے۔ اگر ہم پی ٹی آئی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا ذکر کریں تو عمران خان
کے بعد دوسرا نام حفیظ اللہ نیازی کا ہے۔ مختلف شعبوں میں ملک کی معروف اور بااثر شخصیات کو عمران خان کے قریب لانے میں حفیظ اللہ نیازی کا کردار سب سے نمایاں ہے انہوں نے یہ کام ذاتی تعلقات کی بنا پر کیا۔ مختلف اہم اور بااثر حلقوں میں ان کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حفیظ اللہ نیازی‘ حمید گل، حسن نثار اور حفیظ خان سمیت درجنوں افراد کو عمران خان کے قریب لائے۔ بلاشبہ ان سب لوگوں کو عمران خان کی ایمانداری ملک سے محبت اور مقصد کے ساتھ جڑے رہنے کے جذبے نے بھی متاثر کیا لیکن ملاقاتوں اور ان افراد کو قائل کرنے کا کریڈٹ حفیظ اللہ نیازی کو ہی جاتا ہے۔ وہ ایک سمجھدار اور کامیاب کھلاڑی تھے جو ہر وقت بہتر منصوبہ بندی میں مصروف رہتے اور مسائل اور فیصلوں کا ہر پہلو سے جائزہ لیتے تھے۔ وہ ستانوے کا الیکشن ہو یا ننانوے کے حالات یا پھر دو ہزار دو یا دو ہزار سات حفیظ اللہ نیازی نے ہر جگہ آنے والے حالات کے بارے بہتر رائے عمران خان کے سامنے رکھی۔ چند سال قبل دونوں کے مابین اختلافات پیدا ہوئے حفیظ اللہ نیازی جذبات میں اظہار خیال کرتے رہے اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا غلط فہمیاں پیدا ہوتی رہیں اور دونوں کے راستے جدا ہو گئے۔ آج بھی حفیظ اللہ نیازی میڈیا میں پاکستان تحریکِ انصاف یا عمران خان کے بارے کچھ بولتے ہیں تو وہ تنقید نہیں بلکہ ان کے الفاظ عمران خان سے محبت کا اظہار ہیں۔ تعلقات میں خرابی سے ان کے اخلاص کو ہدف یا مشکوک نہیں بنایا جا سکتا۔ دونوں طرف سے مسئلہ انا کا ہے حفیظ اللہ نیازی بھی اس میں مبتلا ہیں اور عمران خان بھی اسی انا کا شکار ہیں۔ یہ ان کا اخلاص اور تحریک انصاف کے نظریے سے پیار ہے۔ جب ایک سیاسی جماعت کو اپنے ہاتھوں سے بڑا کیا ہو تو بڑا کرنے والوں کے بھی جذبات و احساسات ہوتے ہیں ان جذبات کا خیال رکھنا ہی اچھے کپتان کی ذمہ داری ہے۔ آج بھی عمران خان کو ایسے مخلص، محنتی اور درست راستہ دکھانے اور غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے ساتھیوں کی ضرورت ہے۔ عمران خان کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سرفہرست نظریاتی دوستوں کی کمی ہے۔ یہ ایماندار اور بے لوث لوگ ہی اس جماعت کے حقیقی وارث ہیں۔ اگر یہ لوگ عمران خان کی مشاورت میں ہوں تو یقیناً جس خواب اور نظریے کی بنیاد پر تحریک انصاف کا قیام عمل میں آیا تھا ان خوابوں کو بھی تعبیر ملے گی۔ لازم نہیں کہ درجنوں نظریاتی کارکن چھوڑ گئے ہیں یا الگ بیٹھے ہیں یا باہر سے اپنی جماعت کا تماشہ بنتے دیکھ رہے ہیں وہ سب ہی غلط ہیں۔ کہیں قائد کو بھی اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنا ہو گی اچھا لیڈر وہی ہوتا ہے جو ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے کرتا ہے۔ اپنے بہترین ساتھیوں سے انکی صلاحیتوں کے مطابق کام لیتا ہے۔ ہم حفیظ اللہ نیازی اور عمران خان کے مابین ذاتی یا خاندانی اختلافات کے خاتمے کے کیے دعاگو ہیں کیونکہ یہ آج نہیں تو کل ختم ہو جائیں گے۔ حفیظ اللہ نیازی اور ان جیسے تمام نظریاتی کارکنوں کی واپسی سے ہی تحریکِ انصاف کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024