بھارتی جنونیت پر دنیا کو قائل کرنے کیلئے ہمیں اپنا سفارتی محاذ مضبوط بنانا ہوگا
قومی اسمبلی کے بعد سینٹ میں بھی انسداد دہشت گردی اور سلامتی کونسل ترمیمی بلوں کی منظوری
قومی اسمبلی کے بعد سینٹ میں بھی گزشتہ روز فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق دو مسودات قانون کی منظوری دے دی گئی۔ قومی اسمبلی میں یہ بل پیش ہونے کے بعد اپوزیشن بنچوں کی جانب سے سخت احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی گئی اور اپوزیشن نے حکومت کو ٹف ٹائم دیا‘ ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور سپیکر ڈائس کا گھیرائو کیا تاہم سپیکر اسدقیصر نے اپوزیشن کے شورشرابے کے دوران ان بلوں پر رائے شماری کرائی اور اکثریت رائے سے انکی منظوری کا اعلان کر دیا۔ جمعرات کے روز سینٹ کے اجلاس میں یہ بل پیش کئے گئے جن کی منظوری میں حکومت کو کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ صرف جمعیت علماء اسلام کی جانب سے ان مسودات قانون پر اعتراضات اٹھائے گئے جبکہ اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے ان مسودات قانون کے حق میں ووٹ دیا چنانچہ چیئرمین صادق سنجرانی نے یہ بل متفقہ طور پر منظور ہونے کا اعلان کر دیا۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے متذکرہ مسودات قانون کی منظوری پر سرکاری اور اپوزیشن بنچوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پارلیمنٹ نے آج پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ کی جانب دھکیلنے کی بھارتی سازش ناکام بنا دی ہے اور پاکستان کے گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ کی جانب جانے میں پیش رفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مشترکہ قومی کاز پر تمام قومی سیاسی جماعتوں کا اتفاق خوش آئند ہے جس کا دنیا کو مثبت پیغام جائیگا۔ پارلیمنٹ میں جن دو مسودات قانون کی منظوری دی گئی ان میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2020ء اور اقوام متحدہ (سلامتی کونسل) ایکٹ 1948ء میں مزید ترمیم کا بل شامل ہے جو مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کئے۔
متذکرہ مسودات قانون کے حوالے سے قومی اسمبلی میں سرکاری اور اپوزیشن بنچوں کے مابین تلخ کلامی اور سخت ہنگامہ آرائی کی نوبت لانے والی جو ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوئی جس کے باعث سپیکر کو اجلاس کی کارروائی تین بار دس دس منٹ کیلئے ملتوی کرنا پڑی اور اپوزیشن کی سخت ہنگامہ آرائی کے باعث وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی تقریر بھی مکمل نہ کرسکے۔ اسکے پیش نظر سیاسی اور پارلیمانی حلقوں کا خیال تھا کہ حکومت سینٹ میں یہ بل منظور نہیں کرا پائے گی جہاں حکومت کو عددی اکثریت بھی حاصل نہیں ہے۔ اس طرح حکومت کی بل منظور کرانے میں ممکنہ ناکامی سے حکومت کی آنیوالی آزمائش کے حوالے سے مختلف قیافے لگائے جارہے تھے جبکہ حکومت کی جانب سے بلوں کی منظوری کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا عندیہ دیا جارہا تھا تاہم اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے سینٹ میں متذکرہ مسودات قانون کی منظوری کیلئے حکومت کا ساتھ دیکر حکومت مخالف پیدا ہونیوالی فضا یکسر تبدیل کردی جس پر جمعیت علماء اسلام (ف) کی جانب سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت سے شکوہ بھی کیا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متذکرہ قوانین کی منظوری سے پاکستان پر بلیک لسٹ میں جانے کے خطرے کی لٹکتی ہوئی تلوار ہٹتی ہے یا نہیں اور گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکلتا ہے یا نہیں۔ اصولی طور پر تو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں بھی پاکستان کا نام ڈالنے کا کوئی جواز نہیں کیونکہ پاکستان تو خود بدترین دہشت گردی کا شکار ہے جو دہشت گردی کے خاتمے کی امریکی نیٹو جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے گزشتہ دو دہائیوں سے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں سے نبردآزما ہے اور خودکش حملوں اور دہشت گردی کی گھنائونی وارداتوں میں سکیورٹی فورسز کے دس ہزار جوانوں اور افسران سمیت پاکستان کے 80 ہزار کے لگ بھگ شہری شہید ہو چکے ہیں جن میں سیاست دان اور سول حکام بھی شامل ہیں۔ ملک میں دہشت گردوں کی سرکوبی اور ان کا نیٹ ورک توڑنے کیلئے سول اور عسکری قیادتوں کے اتفاق رائے سے 22 نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیکر سکیورٹی فورسز کے مختلف اپریشنز کا آغاز کیا گیا۔ یہ اپریشنز آج بھی جاری ہیں اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز آج بھی دہشتگردوں کے نشانہ پر ہیں جن کے سرپرست اور سہولت کار بھارت نے سرحدوں پر بھی پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ چنانچہ بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ہاتھوں سکیورٹی اہلکار اور ملک کے شہری آج بھی شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی باجوڑ ایجنسی میں دہشتگردوں کی پاکستانی چوکی پر فائرنگ سے ایک سپاہی شہید ہوا ہے اور اسی طرح کنٹرول لائن پر رکھ چکری سیکٹر میں بھارتی فائرنگ سے گزشتہ روز تین افراد زخمی ہوئے جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ دفتر خارجہ پاکستان نے اس واقعہ پر سینئر بھارتی سفارتکار کو طلب کرکے سخت احتجاج کیا جبکہ پاک فوج نے کنٹرول لائن پر دشمن کو مؤِثر جواب دیا۔ اسی طرح پاکستان کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں دینی مدارس کی بھی سکروٹنی اور ازسرنو رجسٹریشن کی گئی جبکہ اقوام متحدہ کی لسٹ میں شامل متعدد تنظیموں اور انکے قائدین کے فنڈز اور اکائونٹس منجمد کئے گئے جس کی بنیاد پر دہشت گردی کے خاتمہ میں پاکستان کے کردار کی تو عالمی برادری کی جانب سے ستائش کی جانی چاہیے اور اسکے برعکس پاکستان کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے اور ہندو انتہاء پسندی کو فروغ دیکر مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے پر بھارت کو بلیک لسٹ میں شامل کرکے اسے اقتصادی پابندیوں کی زد میں لایا جانا چاہیے مگر ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کے مصداق پاکستان ہی ایف اے ٹی ایف کی ہر پابندی کی زد میں ہے جو عالمی اداروں اور قیادتوں کے دہرے معیار کا عکاس ہے۔
بھارت تو ہمارے ساتھ بہرصورت شروع دن کی دشمنی نبھا رہا ہے اور ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ مودی سرکار پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہے اس لئے دہشت گردی کے خاتمہ کے حوالے سے ہمارے کسی بھی کردار‘ اقدام اور قانون سازی پر بھارت مطمئن نہیں ہوگا۔ اس تناظر میں ہمیں بھارت کے اطمینان کی خاطر قومی خودمختاری اور مفادات پر کسی قسم کی مفاہمت نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی بھارت کے ساتھ ریشہ خطمی کی پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بہرحال اپنے سفارتی محاذ کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اقوام عالم میں ہمارے خلاف جاری زہریلے بھارتی پراپیگنڈے کا مؤِثر توڑ کیا اور بھارت پر دہشت گرد ملک کا لیبل لگوایا جاسکے۔ اگر اب بھی پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل رہتا ہے تو ہمارے لئے اس سے بڑا المیہ اور کوئی نہیں ہوگا۔