معزز قارئین!۔ آج (31 جولائی کو ) اہلِ پاکستان اور بیرونِ ملک ’’ فرزندانِ پاکستان و دُخترانِ پاکستان ‘‘ قائداعظم محمد علی جناح ؒکی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ؒ کا 127 واں یوم پیدائش منا رہے ہیں ۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں اپنے عظیم بھائی کے شانہ بشانہ شرکت کی تھی لیکن گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالتے ہی قائداعظمؒ نے اپنی جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا اور اپنی ہمشیرہ کو حکومت اور مسلم لیگ میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا؟
’’ذوالفقار علی بھٹو!‘‘
قبل ازیں 7 اکتوبر 1958ء کو پاکستان کے منتخب صدر میجر جنرل (ر) سکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کِیا تواُن کی کابینہ میںلاڑ کانہ کے وکیل ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے ۔ 4 دِن بعد مسٹر بھٹو نے صدرِ پاکستان کو خط لکھا کہ ’’ جنابِ صدر آپ قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں ‘‘۔ پھر صدر ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو برطرف اور لندن جلا وطن کر کے صدارت کا عہدہ سنبھال لِیا تو مسٹر بھٹو اُن کی ’’ مارشل لائی کابینہ‘‘ میں بھی شامل تھے ۔2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناحؒ ’’پاکستان مسلم لیگ کونسل ‘‘ کی امیدوار بنیں تو’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘جناب مجید نظامی نے اُنہیں ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا ، پھر متحدہ اپوزیشن نے بھی مادرِ ملّتؒ کو اپنا امیدوار بنا لیا ۔مسٹر بھٹو صدر ایوب خان کے "Covering Candidate" تھے ۔ صدارتی انتخاب میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے صِرف 80 ہزار ارکان بنیادی جمہوریت ( خواتین و حضرات )کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا ۔
’’مفتی محمود!‘‘
’’جمعیت عُلمائے ہند‘‘ کے ایک گروپ نے (جسے کانگریسی مولوی کہا جاتا تھا)قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی اور قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کا فتویٰ بھی دِیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد (کانگریسی مولویوں کی باقیات ) مولانا مفتی محمود کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘ لیکن پھر وہ صوبہ سرحد کی وزارتِ عُلّیہ کے جُھولے جھولتے رہے ۔ صدارتی انتخاب سے پہلے 7 نومبر 1964 کو ملتان میں ’’جمعیت عُلماء اِسلام ‘‘ کے ناظم مفتی محمود نے اپنی مجلس شوریٰ کے خطاب میں فتویٰ دِیا کہ ’’ شریعت کے مطابق (کوئی عورت )یعنی محترمہ فاطمہ جناحؒ سربراۂ مملکت کے عہدے کے لئے نااہل ہیں ‘‘ لیکن مفتی صاحب کے بعد اُن کے فرزند مولانا فضل اُلرحمن محترمہ بے نظیر بھٹو کی سربراہی تسلیم کرتے ہُوئے اُن کے اتحادی بن کر مفادات حاصل کرتے رہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے ( وزیر داخلہ ) میجر جنرل (ر) نصیر اللہ خان بابر کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ مَیں نے محترمہ وزیراعظم بھٹو کو بتا یا ہے کہ ’’اگر آپ مولانا فضل اُلرحمن کو ’’سٹیٹ بینک آف پاکستان ‘‘کی چابیاں بھی دے دیں توبھی وہ راضی نہیں ہوں گے؟ ‘‘۔
صحافیوں نے مولانا سے پوچھا کہ’’ آپ وزیر داخلہ پر ہتکِ ؔعزت کا دعویٰ کیوں نہیں کرتے؟‘‘ تو اُن کا جواب تھا کہ ’’ مَیں نے یہ معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دِیا ہے ‘‘۔
’’چیئرمین کشمیر کمیٹی!‘‘
محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے (مجازی خُدا ) آصف علی زرداری کو اپنی پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا لیکن اُن کے قتل کے بعد ’’ نان گریجویٹ ‘‘ آصف زرداری نے صدرِ کا عہدہ سنبھالتے ہی یہ اعلان کِیا کہ ’’ کیوں نہ ہم مسئلہ کشمیر 30 سال کے لئے "Freeze" (منجمد) کردیں ؟ ‘‘۔ اِس مقصد کے لئے زرداری صاحب نے وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ مولانا فضل اُلرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کردِیا تھا۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد میاں نواز شریف وزیراعظم منتخب ہُوئے تو اُنہوں نے بھی مولانا فضل اُلرحمن کو چیئرمین کشمیر کمیٹی بنائے رکھا؟۔ دراصل اُنہوں نے بھی بھارتی وزیراعظم مسٹر مودی سے ’’ یار ی گانٹھ ‘‘ لی تھی۔
معزز قارئین! ’’ناچ نہ جانے ، آنگن ٹیڑھا‘‘ کے مصداق ۔’’ مادرِ ملّتؒ کی 127 ویں سالگرہ سے ایک ہفتہ پہلے ’’نواسۂ بھٹو‘‘ نے ( جن کے دادا حاکم علی زرداری جو، قائداعظم ؒ اور اُن کے والد جناح پونجا صاحب کے خلاف واہیات انٹرویو دینے میں بدنام تھے) مولانا فضل اُلرحمن اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف سے پھر محبت کی پینگیں بڑھائیں۔اُن کے والد آصف علی زرداری اور(’’مادرِ ملّت ثانی‘‘ کہلانے والی ) اُن کی پھوپھی فریال تالپور تو پہلے ہی کئی مقدمات میں ملوث ہیں ۔تازہ ترین خبروں کے مطابق "N.A.B" نے مولانا فضل اُلرحمن اور اُن کے خاندان کے خلاف "Inquiry" کا آغاز کردِیا ہے ۔ مولانا عطاء اُلرحمن اور مولانا لطف اُلرحمن کے نام بھی ’’انکوائری ‘‘ میں شامل ہیں اور مولانافضل اُلرحمن کی اہلیہ اور بچوں کے نام بھی۔
’’شریفوں کی مسلم لیگ!‘‘
عموماً کہا جاتا ہے کہ ’’ مسلم لیگ نام کی ہر جماعت کا صدر ’’ قائداعظمؒ کی کُرسی ‘‘ پر بیٹھا ہوتا ہے ‘‘ لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی خوب ہے کہ ’’اُس کے دونوں صدور میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی ملّی بھگت سے 4 ستمبر 2018ء کے صدارتی انتخاب میں فضل اُلرحمن صاحب اُن کے امیدوار تھے لیکن، وہ ہار گئے تھے ؟بہرحال مولانافضل اُلرحمن کمال کے ’’ سیاست دان ‘‘ ہیں کہ پہلے وہ "P.T.C.L" کے ایک سابق ملازم اپنے چھوٹے بھائی ضیاء اُلرحمن کو ’’شہر قائد اعظمؒ ‘‘( کراچی کے ایک علاقے کا ) ڈپٹی کمشنر بنوانے میں کامیاب ہو ئے اور پھر ناکام ۔ اِسے کہتے ہیں ۔ ’’وغیرہ وغیرہ! ‘‘۔
’’ آگے آگے دیکھئے ، ہوتا ہے کیا؟‘‘
٭…٭…٭
30-07-2020