ہماری اخلاقیات کی افسوسناک تصویر

’’ اَمَّن’ ہٰذَا الّذِی’ یَرزُقُکُم’ اِن’ اَ مسَکَ رِز’قَہ ‘‘
ترجمعہ: بھلا کون ہے وہ جو روزی دے تم کو اگر روک لے رحمٰن اپنا رزق(سورۃ الملک آیت 21)
’’132 ‘‘ممالک میں موجود 2.7ارب غریب ترین لوگوں کیلئے عارضی آمدنی کی فراہمی کرونا پھیلاؤ کم کر سکتی ہے ۔ عالمی کساد بازاری’’ 26کروڑ 50لاکھ‘‘ لوگوں کو فاقوں کی نذر کر سکتی ہے۔ ’’یواین ڈی پی اقوام متحدہ‘‘ طویل لاک ڈاؤن نے صرف معاش نہیں بلکہ ذہنی صحت کو از حد نقصان پہنچایا ۔ ذہنی دباؤ کا بحران شاید سالہا سال چلے ۔ کرونا متاثرین کی بڑھتی تعداد۔ اموات میں ہی معاشی گراوٹ کی اطلاعات آنا شروع ہوگئی تھیں ۔عالمی ادارہ صحت نے کافی حد تک یقینی الفاظ میں خبردار کر دیا تھا کہ ’’ایچ۔آئی ۔وی‘‘ کی طرح شاید’’ کرونا‘‘ بھی کبھی ختم نہ ہو ۔ ساتھ ہی عالمی معیشت’’ 3.2 فیصد‘‘ گھٹنے کا خطرہ بھی ظاہر کر دیا ۔ زیادہ تشویش ’’اقوام متحدہ‘‘ کی اِس رپورٹ نے پیدا کی کہ جنوبی ایشیا کے ’’10 کروڑ بچے‘‘ خطہ غربت سے نیچے جاسکتے ہیں۔ لاک ڈاؤن نے بچوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ۔ کرونا باعث دنیا بھر میں غربت کی زندگی گزارنے والے بچوں کی تعداد ’’15فیصد‘‘ بڑھ جائیگی۔اُس غریبی سے پناہ مانگو جو مایوس کر دیتی ہے اور اُس مال سے پناہ مانگو جو مغرور کر دیتا ہے۔
شاید غریبوں ۔ نادار لوگوں کے پیٹ کی بڑھتی ہوئی مایوسی ۔ تنگی تھی۔ دوسری طرف ’’امراء ‘ ‘ کی آسمان تک بلند ہوتی تجوریوں کا سائز اور ساتھ میں گردنوں کا خم ۔ زیادتی ۔ افراط دولت میں ہو یا دنیاوی جاہ وحشم میں ۔ جب بھی انسانیت کے دائرے سے نکلا۔ کسی نہ کسی قوم گروہ ۔ ملک کیلئے ناقابل تلافی نقصان کا موجب بنا۔ شاید نا اُمیدی ۔ معاشی ننگ اور تکبر کا اکٹھ ہی لمحہ موجود کی صورت گری کا باعث بنا ہو؟ ؟دن کی روشنی یا رات کا اندھیر دنیا نے’’ا برمی پناہ گزین‘‘ زندہ جلتے دیکھے ۔ ’’کشمیری قوم‘‘ کی لاچارگی ۔وحشیانہ قتل عام۔ کوئی بھی ’’پاور بروکرز‘‘ کو متوجہ نہ کر پایا۔ طاقت کا زعم ۔ ملکیت کا غرور ۔ اختیار کا گھمنڈ مظلوم مسلمانوں کا خون پیتا رہا۔
ہم سب ’’ہم کیا کرسکتے ہیں‘‘ کی تصویر بنے خاموش رہے ۔ کچھ کیا بھی تو صرف خانہ پُری ۔ مضامین لکھ دئیے ۔ رسائی ہوئی تو چند ٹویٹ پھر ہاتھ جھاڑ کر دبک گئے مبادا ’’خونی بلا‘‘ ہمارے گھر نہ گُھس آئے ۔ معلوم نہیں کتنے معصوم بچے ۔ نحیف بزرگ بھوک ۔ پیاس کی وجہ سے دنیا سے گئے ؟ ؟ظلم ۔ تشدد ۔ نفرت ۔ حق تلفی حد سے بڑھی تو ’’خالق کائنات‘‘ کا کوڑا برسا کہ مظلوم + ظالم+ امیر ۔ غریب سبھی اوندھے منہ گر پڑے ۔ چاہے لاکھ تکرار کرلیں کہ سازش کے تحت ہوا اگر ’’مالک کائنات‘‘ کی مشیت نہ ہوتی تو بال برابر کچھ نہیں ہونے والا تھا ۔ معاشی ترقی کے دیو قامت عالمی مینار صحت عامہ کے میدان میں ریت کی ڈھیری بن گئے۔ اب معاشی مواقع سکڑنے کی اطلاعات ہیں ۔
پاکستان اُن چند خوش قسمت ممالک میں سامل ہے جہاں کرونا سے جانی نقصان سب سے کم رہا ۔ ’’الحمدللہ‘‘۔ پر اقتصادی نقصان نے انجر پنجر ہلا دئیے ۔ وہ بھی ایسی معیشت کے جو پہلے ہی تنزلی۔ زوال کا شکار تھی ۔ شکر کہ جان بچانے کی حکومتی کاوش ثمر بار رہی ۔ صحت یابی کی بڑھتی ہوئی تعداد اور کرونا متاثرین کا کم ہوتا ہوا گراف حوصلہ افزا خبریں تھیں کہ پھر سے ’’لاک ڈاؤن ‘‘ کا فیصلہ صرف پنجاب خصوصاً ’’لاہور۔پنڈی‘‘ وغیرہ جبکہ چھوٹے شہروں میں نہ پہلے تجارتی مراکز بند ہوئے تھے نہ اب ۔ شک نہیں کہ فیصلہ کے پس منظر میں عوامی بھلائی مقصود ہے مگر اب حالات بہت مختلف ہیں۔ کم ہوتی آمدنی کے ساتھ صبر۔برداشت بھی بہت کم ہو رہی ہے۔ چھوٹی عید پر بھی کاروبار بند اور ٹرانسپورٹ کُھلی تھی ۔ نتائج ۔ گراف اُوپر چلا گیا اب پھر وہی صورتحال ہے۔ معاش بند ۔ آمدورفت رواں۔ ایک سٹرک بند متوازی کُھلی ۔ ’’ایس۔او ۔پیز‘‘ کے ساتھ دکانیں کُھل سکتی ہیں ۔ جنرل سٹور۔ تندور ۔ ہوٹلز۔ دودھ دہی کے مراکز پر تو عام حالات میں بڑا رش ہوتا ہے۔ ایک ہی علاقے کی سینکڑوں کُھلی دکانوں سے اگر ’’کرونا‘‘ نہیں پھیلنے کا خطرہ تو پھر چند سو بند رکھنے کی کوئی تک نہیں۔
نیت صاف۔ ارادہ پکا ہو تو کارکردگی ’’ڈگری‘‘ پر سبقت لے جاتی ہے۔ محنتی ۔ قابل آدمی کے ہیوی سائز حوالے ۔ آسمان تلک تعریفیں بیساکھیاں نہیں ہوتیں وہ فیصلے ۔ وہ لوگ جو نقصان کا موجب بنے ۔ فرمائشی استعفیٰ یا برطرفی نقصان کی تلافی نہیں کرسکتی ۔ مشاورت میں خیر ہے اگر بامعنی ہو۔ بے غرض ہو۔ مفادات تابع فیصلے ساکھ خراب کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ جب ’’لیڈر‘‘ ایماندار ہے تو پھر ناک نیچے؟؟‘‘…سیاسی مالکان‘‘ کی لوٹ مارنے پاکستان کو اندھیری نگری میں بدل دیا۔ صد شکر کہ ہماری زندگی کا معمار۔ حقیقی مالک ’’اللہ رحمان‘‘ ہے ۔بڑی بابرکت ہے وہ ذات جو آسمانوں اور زمین کا حقیقی موجدِے بے مثال ہے۔ عادل بادشاہ سب کے ساتھ یکساں برتاؤ والا۔ حتیٰ کہ ’’کفری اقوام‘‘ کو بھی بھرپور رزق سے نواز رہا ہے۔
ترجمہ: کہو کیا تم نے سوچا کہ اگر ہو جائے تمہارا پانی خشک تو کون ہے جو لائے تمہارے لئے چشمے کا پانی ۔ (سورہ الملک ۔ آیت 30)
ہماری نافرمانی کے باوجود رزق کا جاری رہنا ’’اللہ تعالیٰ رحیم ۔ کریم‘‘ کی بہت بڑی عطا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کیلئے بھی آسانیاں پیدا کریں ۔ صرف خود کی ذات کو بے پناہ خوشحال ۔ پرسکون رکھنے کی سعی نہ کریں ۔ دوسروں کو بھی ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کی عطا کردہ نعمتوں ۔ فضل میں حصہ دار بنائیں ۔ کل بڑی عید ہے بحیثیت قوم ہمارا حال کیا ہے ؟ بے حد افسوس ناک تصویر ۔ کوئی مذہبی ۔ قومی تہوار ہو یا پھر زمینی ۔ آسمانی آفت ۔ ہماری کمائی کے نہیں بلکہ منافع خوری۔ ذخیرہ اندوزی کا سیزن کہلاتے ہیں ۔ موت کے منہ میں بیٹھ کر موت کے منہ میں جاتے لوگوں کو لُوٹنے ۔ اُن سے ناجائز پیسہ بٹورنے کی کوئی کوشش ضائع نہیں ہونے دیتے ۔ ایسی قوم اپنے حکمرانوں کو ’’خلفائے راشدین‘‘ دیکھنا چاہتی ہے۔اور خود؟