درست اعدادوشمار کے مطابق مجھے یہ تومعلوم نہیں کہ دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک کی اپنے سے چھوٹے کمزوراور مالی مدد سے چلنے والے ملکوں سے کی گئی مفاداتی فرینڈشپ کو حتمی عمرکتنے برس تک ہوتی ہے تاہم یہ ضرور جانتا ہوں کہ سیاسی ‘معاشی اور اقتصادی بدحالی کے شکار بیشترممالک کی عالمی ترقیاتی اداروں کو کنٹرول کرنے والے ممالک سے دوستی خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو DO MORE کا طعنہ انہیں بہرحال برداشت کرنا ہی ہوتا ہے۔؟؟
اسے ہم اب اپنی قومی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ پاکستان جو کروڑوں قربانیوں اورلاالہ کے نام پر حاصل کیا گیا کا شمار بھی اب امریکہ کی مخصوص ممالک کے خلاف تیارکی گئی Do More پالیسی میں ہونے لگا ہے بااعتماد اتحادی اور دیرینہ پاک امریکی دوستانہ تعلقات کا راگ الاپنے والی امریکی انتظامیہ نے اپنی نئی عالمی عسکری پالیسی اور مالیاتی سٹریٹجی کو اب اس انداز سے لگانا شروع کیا ہے جیسے پاکستان ایسے بااعتماد اتحادی سے اس کی کبھی ’’شناسائی ہی نہ ہو۔‘‘
پاک امریکہ تعلقات کی دوستانہ تاریخ بلاشبہ ایک طویل عرصہ پر محیط ہے مگرافسوس امریکہ نے پاکستان کی 70سالہ اس دوستی کو اب عدم اعتماد کی فہرست میں شامل کرلیا ہے ۔گرگٹ ایک ایسا پرندہ ہے جو بالعموم حالات کے مطابق اپنا رنگ بدل لیتا ہے اس طرح کی صورت حال اب امریکہ کی ہے۔ 2004ء میں جارج بش نے القاعدہ اور طالبان کے خلاف لڑنے اور مدد کرنے پر پاکستان کو غیرنیٹواتحادی کا درجہ دے کر اس وقت یہ ثابت کیا کہ پاکستان امریکہ کا بہترین اتحادی دوست ہے مگراس طویل جنگ کے بعد افواج پاکستان کی دی گئی سب سے زیادہ قربانیوں کو اگلے روز یوںنظرانداز کردیا گیا جیسے امریکہ سے پاکستان کے کسی دوستانہ تعلقات قائم ہی نہ تھے پاکستان کوملنے والا غیرنیٹواتحادی درجے کو امریکی Republician اور Democraticکے رکن ٹیڈیو اور نولان نے امریکی ایوان نمائندگان میں اگلے روز یہ بل پیش ہوئے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مؤثر کردارادا کرنے میں چونکہ ناکام ہوگیا ہے اس نے اب پاکستان سے تعلقات توڑلینے چاہئیں اور یہی نہیں امریکہ کو ترجیحی بنیادوں پر پاکستان کو جدید ناکام ہوگیا ہے اس نے اب پاکستان سے تعلقات توڑلینے چاہئیں اور یہی نہیں امریکہ کو ترجیحی بنیادوں پر پاکستان کو جدید اسلحہ فراہم کرنا بھی بندکردینا چاہیے۔ ری پبلکن اور ڈیموکریٹک ان ارکان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے گزشتہ 15برسوں میں امریکہ سے اربوں ڈالرکا فائدہ اٹھایا اور بھی کئی مراعات حاصل کیں مگر ہمیں محفوظ بنانے کے لئے دہشت گردی کے خلاف پاکستان وہ کردار ادا نہیں کرسکا جس کی ہمیں توقع تھی۔ دونوں اراکین نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان کا دہشت گرد تنظیموں سے اب بھی تعلق جاری ہے اس لئے پاکستان پر دہشت گردی کے خاتمہ سے اعتبار کرنا ممکن نہیں رہا۔
امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان کو دی گئی قربانیوں کے خلاف اس طرح کابل کوئی پہلی مرتبہ پیش نہیں کیا گیا بلکہ اس طرح کے کئی کاغذی بل پہلے بھی پیش کئے جاچکے ہیں۔ ری پبلکن پارٹیوں کے مذکورہ ارکان کی پاکستان کے بارے میں منفی سوچ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب ضرورت تھی توپاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا۔ جب افغانستان میں اپنا مطلوبہ ہدف پورا کرلیا توپاکستان پر عدم اعتماد کے الزامات لگانا شروع کردئیے ۔سوال تویہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی دی گئی قربانیوں پر عدم اعتماد کی امریکی سوچ کواگراس طرح قائم رکھنا تھا تو پھر 2004میں جارج ڈبلیو بش نے القاعدہ اور طالبان کے خلاف لڑے اور افواج پاکستان کی مدد سے دہشت گردوں کے صفایا پر پاکستان کو غیر نیٹواتحادی کا درجہ کیوں دیا۔
اس بل کے تناظرمیں امریکی دفاعی پالیسی بل اور پاکستان کو ملنے والی دفاعی امداد پر لگائی جانے والی پابندیاں یقینا پاک امریکہ تعلقات میں رکاوٹ بن سکتی ہیں دفاعی امداد روکنے کی بنیادی وجہ دہشت گردی کا تاہنوزخاتمہ، حقانی نیٹ ورک اور بارودی سرنگوں کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لئے حتمی اقدامات وہ ایسی شرائط ہیں جو امریکہ نے پاکستان پرلگادی ہیں۔ معاملہ یہیں تک ہی نہیں رکھا گیا اس شرائط کے بعد ایک بڑی شرط یہ بھی عائد کی گئی کہ امریکی دفاع جب تک مذکورہ شرائط پر مطمئن نہیں ہوتے اور ان کی جانب سے گرین سگنل نہیں دیا جاتا پاکستان کو 2018تک دی جانے والی 40کروڑڈالرکی دفاعی امداد بحال نہیں کی جائے گی۔
دکھ تواس بات کا ہے کہ افغانستان کی وہ جنگ جو ہماری تھی ہی نہیں،امریکہ کے بااعتماد اتحادی ہونے کے ناطے ہماری غیورافواج پاکستان نے لڑی جس میں 60ہزارجانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا گیا۔ مگرافسوس! امریکہ نے ہماری ان قربانیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان کی دفاعی امداد کو ایک مرتبہ پھرمشروط کردیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاک افغان کی 27سوکلومیٹرطویل باؤنڈری کو پاکستان کے لئے تنہا کنٹرول کرنا ممکن نہیں امریکہ نے ایک ’’انتباہ‘‘کی سی صورت پیدا کردی ہے جو پاکستان کی خود مختاری پر حملہ اور افواج پاکستان کودی گئی قربانیوں کو توہین ہے۔
دوسری جانب اتحادی فوج کے امریکی کمانڈر جنرل نکلسن جن کے جی ایچ کیو کے سلسلہ وار دوروں کی کوئی گنتی ہی نہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے افواج پاکستان کی اب تک دی گئی قربانیاں دیگراتحادی ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو الزام تراشیوں کا نشانہ بنایا قطعی درست نہیں۔ جنرل نکلسن کو یہ بھی معلوم ہے کہ پاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتیوں کی دینا معترف ہے اور جنرل یہ بھی جانتے ہیں کہ خطے میں امن واستحکام کے لئے پاکستان کو نظراندازکرنا کسی طور پر بھی ممکن نہیں…اس لئے جنرل نکلسن پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ افغان پالیسی کے حوالہ سے وہ امریکی ایوان نمائندگان کو اصل حقائق سے آگاہ کریں کیونکہ دفاعی بل کے موقع پر پاکستانیوں پر الزام لگانے سے دوطرفہ تعلقات مزید متاثرہوسکتے ہیں،میری اس سوچ پر یہاں لندن میں میرے ایک ینگ امریکی دوست کو اس لئے بھی اختلاف ہے کہ امریکی سلامتی کے لئے وہ اس اقوام کو درست قراردیتا ہے اس کا کہنا ہے کہ پاکستان بیوروکریٹس ٹیکنوکریٹس اور سیاست دانوں کے لُوں لُوں سے وہ واقف ہے کہ شام کی چائے کی محفلوں میں جب کرنٹ افیئرز سے امریکی پالیسیوئوں تک تبادلہ خیال ہوتا ہے توبعض wtlectualکے سوالوں کاجواب خود ان کے چہروں سے عیاں ہوجاتا ہے بس یہ سمجھ لو کہ پاکستانیزگریٹ قوم ہے مگرافسوس قوم کو راستہ دکھانے والے بیشترمسیحاؤں کا مزاج آج بھی ’’امریکہ کی لاٹری، اور شواز ریگل ‘‘کے گرد گھومتا ہے جس ملک کے سیاہ وسفید کرنے والوں نے گیارہ ماہ میں 7ارب 73کروڑکا غیرملکی قرضہ لے رکھا ہو وہاں خوشحالی نہ آئے حیرت کی بات ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38