عظیم بھائی کی عظیم بہن۔۔۔مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح
تحریر :۔ عزیز ظفر آزاد ۔۔۔
کون جانتا تھا کہ 31جولائی 1883ءایک متوسط گھرانے میں پیداہونے والی بچی آگے چل کر نقشہ عالم پر قائم ہونے والی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے بانی کی بہن اور تحریکی ساتھی ہی نہیں بلکہ پوری ملت پاکستانیہ اس عظیم ہستی کو مادر ملت کے اعلیٰ ترین درجہ پر فائز کرے گی ۔ روز اول سے ہی جناح پونجا کی ننھی فاطمہ کا اٹھنا بیٹھنا کھانا پہننا اپنی ہم عمروںسے بالکل مختلف مگر بھائی محمد علی سے سو فیصد یکسانیت رکھتا تھا ۔ محمد علی جناح اور فاطمہ جناح جس استقلال ایمان و یقین سے صبر آزما ہوئے جتنی ہمت متانت سے محمد علی جناح اور ان کی ہمشیرہ عزیز فاطمہ جناح نے تحریک پاکستان کی کٹھن ترین منزلوں میں اپنی عملی جدوجہد جاری رکھی ہے یقینا یہ عظیم تحریک اور اس کے رہبر بہن بھائی تاریخ عالم کی یکتا مثال ہیں ۔ان کی اصول پرستی اور بے غرضی کے باعث تحریک کے تمام رہنما حضرت قائد آعظم محمد علی جناح کے نقش قدم پرچلنے کوشش میں رہتے ۔ دونوں عظیم ہستیوں نے اپنے گھر بسانے پر قوم بنانے اور مسلمانان ہند کو علیحدہ مادر وطن دینے کو ترجیح دیتے ہوئے ایثار واخلاص کے ایسے بلند ترین معیار قائم کئے کہ وہ پاکستانی قوم اور ملت اسلامیہ کےلئے اعزاز ہے جسے پوری قوم احترام و اکرام کی نظر سے دیکھتی ہے ۔ اسی لئے آج بھی پاکستانیوں کے واسطے سب سے محترم و معتبر ہستیاں یہی دونوں بہن بھائی ہیں ۔ ہر مرد وزن کی زبان پر آپ دونوں کے بلند کردار اور اعلیٰ اوصاف کے ترانے افسانے سنائی دیتے ہیں ۔معروف صوفی بزرگ مصنف ادیب اشفاق احمد فرماتے ہیں " محترمہ فاطمہ جناح اپنی زندگی ملت اسلامیہ کے عظیم قائد کے لئے وقف کر رکھی تھی ۔ان کی زندگی کا مرکز صرف ان کے بھائی کی ذات تھی ۔ اس حقیقت سے اس راز کی نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ قائداعظم کی عظمت و لگن اور استحکام میں محترمہ فاطمہ جناح کی رفاقت اور خدمت کی پشت پناہی کا عمل بھی شامل تھا ۔ محترمہ بلاشبہ پاکستان اور اہل پاکستان کی محسنہ ہیں جو آخری دم تک قوم کی خدمت کی جدوجہد کرتی رہیں ۔ آخری عمر جو آرام کے حصول اور بیماری سے نبردآزما ہونے کی ہوتی ہے اس وقت قوم کو ان کی قیادت کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ آرام و سکون تج کرکے میدان عمل میں اتر آئیں اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چراغ منزل بن کے چمکنے لگیں "بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح میں جہاں شکل و صورت ، رہن سہن ، نشست و برخاست سمیت عادات و سکنات مشابہ تھیں ۔وہاں قیادت کا طلسم بھی ایک جیسا تھا ۔ غور فرمائیے کہ برصغیر کے جید علما ، نوابین ، رﺅسا ، سیاسی رہنما سب کے سب آپ کی قیادت قبول کرنے پر مجبور نظرآتے ہیں ۔جس قیادت میں مولانا شوکت علی ، حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خان جیسے مجاہد ملت صف آراءنظر آتے ہیں بقول اقبال
نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز ۔۔۔۔ یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
انہیں اعلیٰ صفات کے باعث برصغیر کی بکھری مسلم ملت ایک قوم کی شکل میں متحد ہوگئی ۔یہی کیفیت مادر ملت کی بھی نظر آتی ہے جب ایوبی آمریت کے مقابل بڑے بڑے تیس مار خان میدان چھوڑ گئے تو مادر ملت نے سامنے آکر آمر کو للکار اتو اس دور کے بڑے بڑے مختلف نکتہ نظر رکھنے والے سیاست دان اور فرقوں میں بٹے علمائے دین آپ کے پرچم تلے متحد و متفق نظرآتے ہیں ۔ ان میں جناب آغا شورش کاشمیری بھی ہیں جو مادر ملت کے بارے میں قلم طراز ہیں ۔" بھائی کے ہو بہو تصویر بلند وبالا اکہرا بدن بہتر سال کی عمر میں کشیدہ قد گلابی چہرہ ستوواں ناک آنکھوں میں بلا کی چمک جائزہ لیتی ہوئی آنکھیں بال سفید ماتھے پر جھریاں آواز میں اقبال چال میں کمال طبیعت میں جلال سراپا استقلال رفتار و گفتار میں سطوت،کردار میں عظمت، قائد کی معنونی صفات کا عکس ، صبا کی طرح نرم ، رعد کی طرح گرم ، بانی پاکستان کی نشانی ایک حصار جس کے قرب سے حشمت کا احسا س ہوتا ہو ۔ جس کی دوری سے عقیدت نشودنما پاتی ہے ۔بھائی شہنشاہ بہن بے پناہ "اسی دور کے ایک دوسرے رہنما نواب زادہ نصراللہ خان کہتے ہیں کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح برصغیر کی تاریخ کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے مسلم خواتین کو جدوجہد آزادی کی تحریک کے لئے منظم کیا ۔سابق صدر آزاد کشمیر کے ایچ خورشید نے فرمایا کہ کشمیری عوام مادرملت کے ان بے لوث خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی جو انہوں نے آزادی کشمیر اور حق خود ارادیت کے متعلق سرانجام دیں وہ صرف کشمیری عوام ہی کی نہیں برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم محسنہ ہیں ۔سابقہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا کہنا ہے کہ میں نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہوں اس عظیم خاتون کی خدمت میں جس کی پوری زندگی قوم کے لئے وقف رہی ۔جو خلوص عزم و ہمت اوراصول پرستی کی مظہر تھیں جس کی خدمات کے ایسے زندہ جاوید سلسلے ہیں جسے عظیم قوم کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔سالار صحافت اور محافظ قیادت تحریک پاکستان جناب مجید نظامی صبح و شام یہ پرچار عام کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اقبال نہ ہوتے تو پاکستان نہ ہوتا ، حضرت قائد اعظم نہ ہوتے تو غلام قوم کو آزادی میسر نہ آتی ، اگر مادر ملت فاطمہ جناح نہ ہوتیں تو حضرت قائد 1947ءتک نہ جی پاتے اگر زندہ رہتے تو بھی یہ کارہائے نمایاں برپا نہ کر پاتے جو مادر ملت کی محبت اور لگن کے باعث سرانجام ہوپایا ۔ حضرت قائد اعظم کی صحت کے ساتھ جملہ امور کی نگرانی مادرملت کے پیکراخلاص و ایثار کی مرہون منت ہے ۔یقینا فاطمہ جناح کی زندگی قومی و ملی امنگوں سے عبارت ہے ۔ آپ کی پرخلوص اور بے غرض جدو جہد کا کوئی بدل نہیں اسی لئے آپ کو مادر ملت کا خطاب دیا گیا ۔ یہ سعادت بھی محافظ اعلیٰ نظریہ پاکستان مجید نظامی اور قومی سوچ کے ترجمان نوائے وقت کو حاصل ہے ۔ نوائے وقت ہی تحریک پاکستان مشاہیر تحریک پاکستان کے سچے جذبوں ولوں کا ترجمان و پاسبان ہے ۔مادر ملت بے حد ذہین ، بردبار اور فرض شناس ہونے کے ساتھ ساتھ مقصد کی پاکیزگی اور بلندی کو سمجھتے ہوئے اصول کی لگن میں محو رہتیں ۔ وہ بھائی کی طویل جدوجہد میں جس طرح ہمہ تن گوش دیکھی گئیں۔ محترمہ پوری تحریک آزادی میں بھائی کے ساتھ سائے کی طرح جڑی ملتی ہیں ۔ پورے منظرنامے میں محترمہ مادر ملت کی دلچسپی کسی شان و شوکت جاہ مرتبہ میں نہیں پائی جاتی مگر بھائی کے ساتھ ہر منظر وپس منظر میں یکساں موجود ہیں ۔حضرت قائد بیماری کے باعث سفر میں نڈھال ہوتے تو فاطمہ کے زانوں پر سر رکھ کر سکون محسوس کرتے۔ حضرت قائداعظم جہان فانی سے عالم بقاکی جانب جب منتقل ہوئے تو فاطمہ گھر بیٹھ گئیں پھر کوئی محفل بھلی لگی نہ کسی مجلس میں دل لگتا یوں محسوس ہوتا جس محفل میں بھائی نہیں وہ محفل ادھوری ہے مگر عظیم بھائی کی قیادت میں حاصل شدہ عظیم اسلامی ریاست کا درد دل کو تڑپاتا ۔ حکمرانوں کی بداعمالیوں اور بے ضابطگیوں کو دیکھ کر کڑھتی رہتیں دل کو لہو کرتیں کیونکہ جانتی تھیں کہ یہ ملک بڑی قربانیوں کا ثمر عظیم ہے اس کی بے قدری کے جرم کی سزا آنے والی نسلوں کو جانے کب تک بھگتنی پڑے لہذا ہر حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سخت رویہ اختیار کرتیں ۔جھرلو الیکشن میں شکست کے بعد مادر ملت کے ساتھی افسردہ ہوکر مایوسی کی باتیں کرتے تو آپ گرجدار آواز میں کہتیں کہ ہم ہارے نہیں ہیں ہم نے اقدارکو دوام بخشا جمہوریت کو قوی کیا ۔