گذشتہ روز شمالی وزیرستان کی تحصیل شوال میں ڈرون حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں 7 افراد جاں بحق ہو گئے۔ دو روز پیشتر کرم ایجنسی کے صدر مقام پارا چنار کے مرکزی امام بارگاہ سے متصل مین بازار میں خودکش دھماکوں میں 50 افراد جاں بحق اور 190 زخمی ہو گئے۔ 25 جولائی کو صوبہ سندھ کے بالائی شہر سکھر میں واقع بیراج کالونی میں سرکاری دفاتر کے کمپلیکس پر دہشتگردوں نے حملہ کیا اور بم دھماکے سے تین حملہ آوروں سمیت 7 افراد ہلاک ہو گئے۔ رہائشی اور سرکاری دفاتر پر مشتمل اس کمپلیکس میں خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا دفتر بھی واقع تھا اسلئے دہشت گردی کی واردات کو آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ قرار دیا گیا ہے۔ سکھر میں سرکاری عمارتوں کے کمپلیکس اور آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ، بم دھماکہ اور خودکش حملہ ان واقعات کا تسلسل ہے جن کے تحت سرکاری فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کی یہ وارداتیں دہشت گردی کے خاتمے کی نام نہاد جنگ کا حصہ ہیں جس کے تحت آج سے بارہ برس قبل امریکہ 40 غیر ملکی فوجوں کے ہمراہ افغانستان پر قابض ہو گیا۔ اس وقت بھی ہم نے یہ کہا تھا کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ نہیں بلکہ فروغ دہشت گردی کی جنگ ہے۔ سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا کو پاکستانی حکام نے اپسے ثبوت پیش کئے ہیں جن کیمطابق سی آئی اے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم انہی سطور میں بار بار یہ سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ امریکہ کے زیر اثر افغانستان میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر بھارت وہاں قونصل خانوں کے نام پر ”را“ کے اڈے قائم کرے اور بلوچستان میں تخریب کاری کیلئے اسلحہ اور افراد قوت بھیج سکے۔ ہماری حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ایک عرصے سے جانتی تھیں کہ امریکی سی آئی اے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے اپنے زر خرید ایجنٹوں کو استعمال کر رہی ہے لیکن زبان اس وقت کھلی جب پانی سر سے اونچا ہو گیا۔ قوم کو بتایا جاتا ہے کہ امریکہ ہمارا دوست ہے پاکستان کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ امریکہ کی نہیں ہماری اپنی جنگ ہے۔ امریکہ خلوص دل کے ساتھ ہماری مدد کرنا چاہتا ہے لیکن حقیقت اسکے برعکس تھی۔ ناقابل تردید سچ یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ سمیت اس وقت پاکستان کو جتنے بھی چیلنج درپیش ہیں ان کا ذمہ دار امریکہ ہے۔ ڈرون حملوں کی امریکی پالیسی کو اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک خوفناک منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ ان ڈرون حملوں کا اول و آخر مقصد یہ ہے کہ انکے ذریعے قبائلیوں کو بار بار مشتعل کیا جائے تاکہ وہ پاک فوج کیساتھ الجھتے رہیں۔ ان حملوں کا مقصد القاعدہ قیادت یا طالبان رہنماﺅں کو ختم کرنا نہیں بلکہ یہ ہے کہ انکے ذریعے قبائلیوں کے بیوی بچے، بہن بھائی اور بزرگ مارے جائیں تاکہ وہ انتقام کی آگ میں اندھے ہو جائیں اور انکی تعداد بڑھتی رہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان صاف الفاظ میں امریکہ پر واضح کر دے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو نہ صرف امن و سلامتی کو اولیت دیتا ہے بلکہ بدامنی پھیلانے والوں، دہشت گردی کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا مقصود ہے تو یہ پاکستان کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ پاکستان نہ صرف ایٹمی صلاحیت سے مالا مال ہے بلکہ نظریاتی طور پر مستحکم ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ اب تک اندرونی طور پر پاکستان کو اپنا دشمن سمجھنے کے باوجود اس سے دوستی اور تعاون رکھنے پر مجبور ہے۔ ہمیں اپنے رویے سے ثابت کر دینا چاہئے کہ مجبور ہم نہیں بلکہ وہ ہے۔ یہی وقت ہے جب ہم امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے باور کرا دیں کہ اس کی پالیسیاں مسلم دشمنی پر مبنی ہیں لہٰذا وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور نہ صرف اسرائیل کو لگام دے کر بلکہ بھارت پر دست شفقت رکھنے سے بھی گریز کرے۔ نادیدہ قوتیں نہیں چاہتیں کہ عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت اور اُمت کا یہ ستون مملکت خداداد پاکستان سیاسی و معاشی طور پر مستحکم ہو سکے۔ ایسی صورتحال میں حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ سیاستدان ذاتی و گروہی مفادات کو پش پشت ڈال کر اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کر کے ملک کو انتشار کی صورتحال سے باہر نکالیں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اقتدار میں آتے ہی کہا تھا کہ دہشت گردی کا قلع قمع کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے لیکن اب انہیں عملی طور پر اسے ختم بھی کرنا ہو گا اور ان عوامل کو بھی ختم کرنا ہو گا جن کی بنا پر ملک میں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ تین اے پی سی پہلے بھی ہو چکی ہیں انکے کیا نتائج نکلے ہیں، ان کی یہ بات درست ہے بہرحال اب جو اے پی سی ہو رہی ہے اسکے مثبت نتائج ضرور نکلنے چاہئیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38