زوبیہ رباب ملک (ممبر پنجاب اسمبلی) .......
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ غربت ہمارے ملک کا Core Issue ہے اور مملکت خداداد کہلائے جانیوالے کی نصف آبادی خط غربت سے کہیں نیچے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ انسانی ترقی کے اکثر انڈیکیٹرز میں ہم دنیا کی سب سے پچھلی صف والے ممالک میں شامل ہیں۔ جہالت‘ صحت عامہ‘ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی اور دہشت گردی جیسے گھمبیر مسائل بھی غربت سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ہمارے ملک کے نوے فیصد مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکیں گے جب تک غربت پر قابو نہیں پایا جائیگا۔ قیام پاکستان کا ایک اہم مقصد برصغیر کے مسلمانوں کو استحصالی نظام سے نجات دلانا تھا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ 62 سال گزر جانے کے بعد بھی عوام کی اکثریت استحصالی طبقات اور انکے قائم کردہ نظام کے رحم وکرم پر اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ پنجاب اسمبلی نے گزشتہ دنوں نئے مالی سال کا بجٹ منظور کیا ہے۔ میں نے بجٹ اجلاس کے موقع پر اپنی تقریر میں اسی ایک نقطے پر زور دیا کہ جب تک ہم مسئلے کی اصل جڑ یعنی غربت کو اکھاڑ نہیں پھینکیں گے ہر قسم کے اعلانات اور اقدامات محض ایک خانہ پری رہینگے اور عوام استحصال کی چکی میں پہلے سے بھی زیادہ بے رحمی سے پیسے جاتے رہینگے۔ مجھے وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی نیک نیتی پر کوئی شبہ نہیں ہے لیکن میں ان اقدامات کو ناکافی سمجھتی ہوں جو ہماری حکومتیں ملک سے غربت کے خاتمے کیلئے کررہی ہیں۔ وفاق میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا پنجاب میں فوڈ سٹمپ سکیم پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں جن سے بلاشبہ لاکھوں خاندانوں کی مالی اعانت ہوسکے گی۔ بظاہر یہ اچھے اقدامات ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی خاندان کی چند ہزار روپے کی مدد کردینے سے کیا وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے گا؟ میں اس نقطہ نظر کی حامی ہوں کہ ہمیں غریب خاندانوں کو انکے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں مائیکرو فنانس کے تحت انتہائی آسان شرائط پر بلاسود چھوٹے قرضے دیئے جاتے ہیں اور بعض معاشروں میں کاٹیج انڈسٹری کے فروغ کی وجہ سے یہ سماجی اور معاشی انقلاب لانے کا باعث بن چکا ہے۔ ان اداروں کی کامیابی میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ رضاکارانہ طور پر قرضوں کی واپسی کی شرح 99 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان میں بھی کئی معروف این جی اوز اس تصور کیساتھ انقلابی کام کررہی ہیں۔ انکے علاوہ حکومتی سطح پر بھی مائیکرو فنانسنگ کیلئے مالیاتی ادارے موجود ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس شعبے میں پائے جانیوالے پوٹینشل سے بہت کم حد پر کام کررہے ہیں۔ خواتین ہمارے ملک کی آبادی کا نصف سے زائد ہیں لیکن ان کی اکثریت کو اقتصادی عمل میں شرکت کے مواقع نہیں مل رہے ہیں۔ مائیکرو فنانسنگ کے ذریعے خواتین کی بہت بڑی تعداد کو ملک کی اقتصادیات کااہم جزو بنایا جاسکتا ہے۔ سلائی کڑھائی یا ایمبرائیڈری‘ گھریلو سطح پر پولٹری‘ لائیو سٹاک‘ سبزیاں اور پھل ہینڈی کرافٹس‘ فرنیچر اور اسی نوعیت کے دوسرے چھوٹے منصوبوں کے ذریعے لاکھوں خاندان اپنی روزی کمانے کے قابل بنائے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں غربت کی کلیدی وجہ جہالت یا ناخواندگی ہے۔ پنجاب کے بجٹ میں اربوں روپے کی لاگت سے دانش سکولوں کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ تعلیم کے فروغ اور خصوصاً معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کیلئے اسکی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا‘ اسلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ایسے غریب خاندانوں کے بچوں کیلئے مفت تعلیم کے ادارے بنائے جائیں جو مجبوری کی وجہ سے اس نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں لیکن یہاں بھی میرا نقطہ نظریہ ہے کہ جب تک ہم ان وجوہات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرینگے ہم اس مقصد کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے۔ دانش سکولوں کا قیام بہت خوش آئند ہے لیکن اسکے مطلوبہ نتائج اسی وقت حاصل ہوسکیں گے جب اس منصوبے کو Incentive-based بنایا جائیگا۔ دنیا کے کئی ملکوں میں اس طرح کے حکومتی منصوبوں کے انقلابی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
بنگلہ دیش میں BRAC اسکی انتہائی روشن مثال ہے جہاں بچوں کو ہر حاضری پر چاول کا پیکٹ دیا جاتا ہے ایسے بچوں کو انکے لاچار والدین ہوٹلوں اور کھوکھوں پر مزدوری کرنے کی بجائے سکول بھیج سکتے ہیں کیونکہ وہ واپسی پر اپنے گھر والوں کی خوراک بھی ساتھ لاتے ہیں۔ پنجاب حکومت کو بھی دانش سکولوں کی کامیابی کیلئے کچھ ایسی ہی منصوبہ بندی کرنا پڑیگی۔ میں سمجھتی ہوں کہ بے نظیر انکم سپورٹ یا فوڈ سٹیمپ سکیم کے تحت ایک یا دو ہزار روپے سے کسی خاندان کی مدد کردینے سے بہتر یہ ہے کہ اسے مالی طور پر خود کفیل بنانے کیلئے آسان اور بلاسود قرضے دئیے جائیں۔ اگر ہم اپنے صوبے یا ملک سے غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے دیہی علاقوں کو ترقی دینا ہوگی۔ پنجاب کے بجٹ میں غربت میں کمی کے نام پر سستی روٹی سکیم کا عندیہ دیا گیا ہے بدقسمتی سے یہ سکیم صرف شہروں تک محدود ہے جسکی وجہ سے ہماری تین چوتھائی سے زیادہ آبادی اس سے مستفید نہیں ہو سکتی۔ ہماری حکومتوں کی سوچ زیادہ تر لوگوں کی امداد کرنے پر مرکوز نظرآتی ہے انہیں اس قابل بنانے پر نہیں کہ وہ اپنے لئے باعزت روزگار خود کمانے کے قابل ہو سکیں۔ ملک کو حقیقی ترقی سے ہمکنار کرنے کیلئے ہمیں انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے محض لیپا پوتی یعنی Cosmetic measures لینے سے ہم اپنے آپکو طفل تسلیاں تو دے سکتے ہیں ملک سے غربت ختم کرسکتے ہیں اور نہ ہی اسے ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنا سکتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ غربت ہمارے ملک کا Core Issue ہے اور مملکت خداداد کہلائے جانیوالے کی نصف آبادی خط غربت سے کہیں نیچے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ انسانی ترقی کے اکثر انڈیکیٹرز میں ہم دنیا کی سب سے پچھلی صف والے ممالک میں شامل ہیں۔ جہالت‘ صحت عامہ‘ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی اور دہشت گردی جیسے گھمبیر مسائل بھی غربت سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ہمارے ملک کے نوے فیصد مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکیں گے جب تک غربت پر قابو نہیں پایا جائیگا۔ قیام پاکستان کا ایک اہم مقصد برصغیر کے مسلمانوں کو استحصالی نظام سے نجات دلانا تھا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ 62 سال گزر جانے کے بعد بھی عوام کی اکثریت استحصالی طبقات اور انکے قائم کردہ نظام کے رحم وکرم پر اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ پنجاب اسمبلی نے گزشتہ دنوں نئے مالی سال کا بجٹ منظور کیا ہے۔ میں نے بجٹ اجلاس کے موقع پر اپنی تقریر میں اسی ایک نقطے پر زور دیا کہ جب تک ہم مسئلے کی اصل جڑ یعنی غربت کو اکھاڑ نہیں پھینکیں گے ہر قسم کے اعلانات اور اقدامات محض ایک خانہ پری رہینگے اور عوام استحصال کی چکی میں پہلے سے بھی زیادہ بے رحمی سے پیسے جاتے رہینگے۔ مجھے وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی نیک نیتی پر کوئی شبہ نہیں ہے لیکن میں ان اقدامات کو ناکافی سمجھتی ہوں جو ہماری حکومتیں ملک سے غربت کے خاتمے کیلئے کررہی ہیں۔ وفاق میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا پنجاب میں فوڈ سٹمپ سکیم پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں جن سے بلاشبہ لاکھوں خاندانوں کی مالی اعانت ہوسکے گی۔ بظاہر یہ اچھے اقدامات ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی خاندان کی چند ہزار روپے کی مدد کردینے سے کیا وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے گا؟ میں اس نقطہ نظر کی حامی ہوں کہ ہمیں غریب خاندانوں کو انکے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں مائیکرو فنانس کے تحت انتہائی آسان شرائط پر بلاسود چھوٹے قرضے دیئے جاتے ہیں اور بعض معاشروں میں کاٹیج انڈسٹری کے فروغ کی وجہ سے یہ سماجی اور معاشی انقلاب لانے کا باعث بن چکا ہے۔ ان اداروں کی کامیابی میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ رضاکارانہ طور پر قرضوں کی واپسی کی شرح 99 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان میں بھی کئی معروف این جی اوز اس تصور کیساتھ انقلابی کام کررہی ہیں۔ انکے علاوہ حکومتی سطح پر بھی مائیکرو فنانسنگ کیلئے مالیاتی ادارے موجود ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس شعبے میں پائے جانیوالے پوٹینشل سے بہت کم حد پر کام کررہے ہیں۔ خواتین ہمارے ملک کی آبادی کا نصف سے زائد ہیں لیکن ان کی اکثریت کو اقتصادی عمل میں شرکت کے مواقع نہیں مل رہے ہیں۔ مائیکرو فنانسنگ کے ذریعے خواتین کی بہت بڑی تعداد کو ملک کی اقتصادیات کااہم جزو بنایا جاسکتا ہے۔ سلائی کڑھائی یا ایمبرائیڈری‘ گھریلو سطح پر پولٹری‘ لائیو سٹاک‘ سبزیاں اور پھل ہینڈی کرافٹس‘ فرنیچر اور اسی نوعیت کے دوسرے چھوٹے منصوبوں کے ذریعے لاکھوں خاندان اپنی روزی کمانے کے قابل بنائے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں غربت کی کلیدی وجہ جہالت یا ناخواندگی ہے۔ پنجاب کے بجٹ میں اربوں روپے کی لاگت سے دانش سکولوں کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ تعلیم کے فروغ اور خصوصاً معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کیلئے اسکی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا‘ اسلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ایسے غریب خاندانوں کے بچوں کیلئے مفت تعلیم کے ادارے بنائے جائیں جو مجبوری کی وجہ سے اس نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں لیکن یہاں بھی میرا نقطہ نظریہ ہے کہ جب تک ہم ان وجوہات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرینگے ہم اس مقصد کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے۔ دانش سکولوں کا قیام بہت خوش آئند ہے لیکن اسکے مطلوبہ نتائج اسی وقت حاصل ہوسکیں گے جب اس منصوبے کو Incentive-based بنایا جائیگا۔ دنیا کے کئی ملکوں میں اس طرح کے حکومتی منصوبوں کے انقلابی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
بنگلہ دیش میں BRAC اسکی انتہائی روشن مثال ہے جہاں بچوں کو ہر حاضری پر چاول کا پیکٹ دیا جاتا ہے ایسے بچوں کو انکے لاچار والدین ہوٹلوں اور کھوکھوں پر مزدوری کرنے کی بجائے سکول بھیج سکتے ہیں کیونکہ وہ واپسی پر اپنے گھر والوں کی خوراک بھی ساتھ لاتے ہیں۔ پنجاب حکومت کو بھی دانش سکولوں کی کامیابی کیلئے کچھ ایسی ہی منصوبہ بندی کرنا پڑیگی۔ میں سمجھتی ہوں کہ بے نظیر انکم سپورٹ یا فوڈ سٹیمپ سکیم کے تحت ایک یا دو ہزار روپے سے کسی خاندان کی مدد کردینے سے بہتر یہ ہے کہ اسے مالی طور پر خود کفیل بنانے کیلئے آسان اور بلاسود قرضے دئیے جائیں۔ اگر ہم اپنے صوبے یا ملک سے غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے دیہی علاقوں کو ترقی دینا ہوگی۔ پنجاب کے بجٹ میں غربت میں کمی کے نام پر سستی روٹی سکیم کا عندیہ دیا گیا ہے بدقسمتی سے یہ سکیم صرف شہروں تک محدود ہے جسکی وجہ سے ہماری تین چوتھائی سے زیادہ آبادی اس سے مستفید نہیں ہو سکتی۔ ہماری حکومتوں کی سوچ زیادہ تر لوگوں کی امداد کرنے پر مرکوز نظرآتی ہے انہیں اس قابل بنانے پر نہیں کہ وہ اپنے لئے باعزت روزگار خود کمانے کے قابل ہو سکیں۔ ملک کو حقیقی ترقی سے ہمکنار کرنے کیلئے ہمیں انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے محض لیپا پوتی یعنی Cosmetic measures لینے سے ہم اپنے آپکو طفل تسلیاں تو دے سکتے ہیں ملک سے غربت ختم کرسکتے ہیں اور نہ ہی اسے ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنا سکتے ہیں۔