غزہ کی تعمیر نو۔۔

Jan 31, 2025

وقار فانی مغل

وقار فانی مغل
غزہ 365مربع کلومیٹر علاقے پر محیط ہے۔ 7اکتوبر2024کے حملے سے قبل اِس کی آبادی 23لاکھ تھی۔ صیہونی اسرائیل 46ہزار سے زائد اہلِ غزہ کو شہید کر چکا ہے۔ اِن شہداء میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔دو لاکھ سے زائد مہاجر اور 85فیصد اہلِ غزہ گھروں سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جنگ بندی کے اعلانات اکثر زخمی غزہ کے لیے ایک وقتی سانس ہوتے ہیں، لیکن وہ زخم جو جنگوں نے دیے ہیں، وہ ہمیشہ کے لیے رہ جاتے ہیں۔ غزہ، جو پہلے ہی محاصرے، غربت اور تباہی کی تصویر بنا ہوا ہے، ہر جنگ کے بعد مزید زخمی اور خستہ حال ہو جاتا ہے۔اس بار تو غزہ کھنڈرات کا ایسا شہر ہے جہاں عمارتیں تو زمین بوس ہیں مگر اہل غزہ کے حوصلے آسمان سے بھی بلند ہیں، جنگ بندی کے بعد تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں بچوں کے کھلونے، گھر بنانے کے خواب لیے جوانوں کی لاشیں، اور بوڑھوں کی آنکھوں میں امید کی بجھتی روشنی، یہ سب غزہ کی زخمی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ سرزمین جہاں ہر گلی، ہر دیوار اور ہر پتھر ایک داستانِ ظلم سناتا ہے، جنگ بندی کے فوری بعد لٹے پٹے نوجوانوں نے سب سے پہلے اللہ کے گھر کی تعمیر کر کے ایسا پیغام دنیا کو دے دیا ہے کہ سپر پاور صرف اللہ پاک ہے۔اس مسجد کی تعمیر کی وڈیو پوری دنیا میں پھیل چکی ہے،اہل کویت کے تعاون کو ہر سو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔
جنگ بندی اگرچہ گولیوں اور بموں کو وقتی طور پر روک دیتی ہے، مگر غزہ کے لوگوں کے دلوں اور زمین پر لگے زخم ہمیشہ تازہ ہی رہیں گے۔سکول، ہسپتال، بازار، اور مساجد سب تباہ ہوچکی ہیں، اور ان کی تعمیر نو کی امید بھی عالمی بے حسی اور ناکافی امداد کی نذر ہو جانیہے۔ غزہ کی مٹی میں اب بھی امید کے بیج چھپے ہیں۔ غزہ کے لوگوں کا حوصلہ، ان کی استقامت، اور آزادی کے خواب انہیں زندہ رکھتے ہیں۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ جنگ بندی کو محض ایک وقتی حل نہ سمجھے، بلکہ اس سرزمین کو مستقل امن، انصاف، اور انسانی وقار دینے کی کوشش کرے۔ کیونکہ زخمی غزہ کو مرہم کی نہیں، انصاف اور آزادی کی سخت ضرورت ہے۔
غزہ کا نوحہ دراصل انسانیت کی وہ چیخ ہے جو ظلم و بربریت کے اندھیروں میں دبی ہوئی ہے۔ یہ اس سرزمین کی کہانی ہے جہاں معصوم بچے، بے گناہ عورتیں اور نہتے لوگظلم سہتے آ رہے ہیں۔ غزہ وہ زخم ہے جو ہر بار تازہ کیا جاتا ہے، جہاں زندگی مسلسل موت کے سایے میں جی رہی ہے۔غزہ میں ہونے والے مظالم صرف فلسطین کے لوگوں کا المیہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ یہ نوحہ صرف جنگ کا نہیں، بلکہ دنیا کی خاموشی کا بھی ہے۔ انسانی حقوق، انصاف اور امن کے دعویداروں کی بے حسی اور دوغلا پن اس کہانی کا سب سے تاریک پہلو ہے۔غزہ کے بچوں کی مسکراہٹیں بارود کی دھند میں کھو گئیں، ماو¿ں کی گودیں خالی ہوگئیں، اور بوڑھے اپنی نسلوں کو کھوتے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، غزہ کے لوگ اپنی زمین، اپنے حق اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔یہ نوحہ صرف ایک بستی کا نہیں، بلکہ دنیا کے اجتماعی ضمیر کی شکست کا ہے۔ 
غزہ کے تعمیرنو اور بحالی کے امکانات کا انحصار کئی عوامل پر ہے، جن میں سیاسی حالات، بین الاقوامی امداد، اور فلسطینی قیادت کی حکمتِ عملی شامل ہیں۔ غزہ کی تاریخ تنازعات اور تباہی سے بھری ہوئی ہے، لیکن وہاں کے عوام کے عزم اور بین الاقوامی برادری کی مدد سے دوبارہ تعمیر کی امید ہمیشہ موجود رہی ہے۔اور یہی امید اس بار یقین میں بدل رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حوصلہ افزا بیان دیا ہے۔فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازعہ کا کوئی منصفانہ حل نکالنا ہوگا،اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کی جانب سے انسانی امداد اور تعمیراتی وسائل کی فراہمیمیں تاخیر اور بخل آڑے نہ آئے۔فلسطینی قیادت کے درمیان اتحاد مضبوط ہو تاکہ وسائل کا درست استعمال کیا جا سکے اور تعمیر نو مستقبل کو دیکھ کر کی جائے، عالمی برادری غزہ کے عوام کو روزگار اور معیشت بہتر بنانے کے مواقع فراہم کرے،پانی، بجلی، تعلیم، اور صحت کے شعبوں کو فروغ دیا جائے،عالمی سطح پر نوجوانوں اور باالخصوص لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے دروازے کھولے جائیں۔اہل غزہ کے زخم مذید نہ رسیں،دکھوں کا ازالہ ہو ایسا ازالہ کہ تعمیر نو سے جو شاہکار لگے۔حوصلہ تو سب دیکھ ہی چکے ہیں اب شاندار غزہ کوپوری دنیا دیکھے۔دعا ہے کہ اہل غزہ کو ایک بہتر زندگی میسر آئے۔
پاکستان کی جانب سے تما م خیراتی اداروں کے اشتراک سے ہسپتال،تعلیمی ادارے اور پینے کے صاف پانی کے لئے اقدامات کئے جائیں،ہمارے ہاں سے تربیت یافتہ رضاکار بھیجے جائیں جو وہاں انفراسٹرکچر کی بحالی کے علاوہ متاثرہ لوگوں کو مختلف سروسز فراہم کریں۔”نیا غزہ“ان کے لئے بھی نیک نامی کا سبب ہو گا جنہوں نے ضرورت کے وقت آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور ان کے لئے بھی خیر کا نشان ہو گا جو ایمان کے آخری درجہ پر تھے اور جنہوں نے اس بربریت اور ظلم کے خلاف علم حق بلند کیا وہ سرخرو ٹھہریں گے۔غزہ 365مربع کلومیٹر علاقے پر محیط ہے اور اس رقبہ کے ایک ایک انچ کے لئے خون دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیااہل عرب غزہ کی تعمیر نو میں اپنا حصہ بقدر جسہ ڈالیں گے؟

مزیدخبریں