"محفوظ مگر تنہا!"

Jan 31, 2025

سید محمد علی

سید محمد علی 
syedhamdani012@gmail.com
پہلے وقتوں میں زندگی کا رنگ کچھ اور ہوا کرتا تھا۔ لوگ کم وسائل میں بھی خوش رہتے تھے، محلے ایک بڑے خاندان کی طرح ہوتے تھے، اور بھروسہ وہ دولت تھی جو ہر دل میں موجود ہوتی تھی۔ دروازے کھلے رہتے، بچے بےخوف کھیلتے، اور اگر کسی پر کوئی مشکل آتی تو پورا محلہ اس کا سہارا بن جاتا۔ زندگی سادہ تھی، مگر اپنائیت سے بھرپور تھی۔ آج کا دور مختلف ہے، سہولیات بے شمار ہیں، مگر ساتھ ہی ایک انجانا خوف بھی ہمارے دلوں میں بس گیا ہے۔ ہم پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں، مگر پھر بھی عدم تحفظ کا احساس کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟ آج کا زمانہ دیکھیں تو ایک الگ ہی دنیا نظر آتی ہے۔ گھروں کے گرد اونچی دیواریں، لوہے کے دروازے، جدید تالے، نگرانی کے لیے کیمرے، الارم لگے ہیں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ جتنی زیادہ یہ چیزیں بڑھ رہی ہیں، اتنی ہی بے چینی، خوف اور عدم تحفظ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ دلوں میں وہ اطمینان نہیں جو پہلے تھا، ایک دوسرے پر وہ بھروسہ نہیں جو کبھی ہماری سب سے بڑی طاقت ہوا کرتا تھا۔ یہ سب کیوں ہوا؟ کیا واقعی خطرات بڑھ گئے ہیں، یا ہمارا طرزِ زندگی بدل گیا ہے؟ جدید ٹیکنالوجی نے زندگی کو آسان بنا دیا ہے۔ آج ہمارے پاس سیکیورٹی کیمرے، ڈیجیٹل لاکس اور سمارٹ الارم سسٹمز موجود ہیں جو ہمیں زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اگر کوئی خطرہ محسوس ہو تو ایک بٹن دبانے سے مدد پہنچ سکتی ہے۔ پہلے کسی چوری کا سراغ لگانا مشکل ہوتا، مگر اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مجرموں کو پکڑنا آسان ہو گیا ہے۔ معلومات تک فوری رسائی ہمیں کسی بھی ممکنہ خطرے سے پہلے خبردار کر دیتی ہے، اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہم کسی بھی ہنگامی صورت حال میں دوسروں کو آگاہ کر سکتے ہیں۔ لیکن جہاں یہ ترقی فائدہ مند ہے، وہیں اس نے کچھ فاصلے بھی پیدا کر دیے ہیں۔ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے جگہ تھی، اب زیادہ تر وقت موبائل اسکرینز پر گزارا جاتا ہے۔ پہلے محلے کے بزرگ چوکھٹ پر بیٹھ کر نگرانی کرتے تھے، اب سی سی ٹی وی کیمرے یہ کام کرتے ہیں۔ پہلے ضرورت مند کی مدد کے لیے لوگ خود آگے بڑھتے تھے، اب زیادہ تر معاملات حکومتی اداروں اور این جی اوز کے سپرد کر دیے جاتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں ہمیں محفوظ ضرور کر رہی ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک خلا بھی پیدا کر رہی ہیں—وہ خلا جو انسانی تعلقات کی مضبوطی میں آتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ذرائع نے جہاں ہمیں تیزی سے جوڑا ہے، وہیں بعض اوقات غیر ضروری خوف بھی پیدا کر دیا ہے۔ پہلے اگر کسی علاقے میں کوئی چھوٹا سا واقعہ ہوتا تو صرف وہیں تک محدود رہتا، مگر آج وہی خبر لمحوں میں ہر جگہ پھیل جاتی ہے، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا پہلے سے زیادہ خطرناک ہو چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جرائم کی شرح میں ہر جگہ اضافہ نہیں ہوا، بلکہ ہمارے پاس معلومات زیادہ تیزی سے پہنچنے لگی ہیں، اور یہی چیز ہمارے احساسات پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ 

دوسری طرف، زندگی کی تیز رفتاری نے ہمیں سماجی طور پر ایک دوسرے سے دور بھی کر دیا ہے۔ پہلے لوگ زیادہ تر وقت اپنے گھروں، محلوں اور دوستوں کے ساتھ گزارتے تھے، لیکن آج کام اور دیگر مصروفیات کے باعث ملاقاتیں کم ہو گئی ہیں۔ پہلے اگر کوئی نیا پڑوسی آتا تو پورا محلہ اس کا خیرمقدم کرتا، مگر آج کئی لوگ اپنے برابر والے گھر میں رہنے والوں کے نام تک نہیں جانتے۔ یہ دوریاں بڑھنے کی ایک اہم وجہ ہماری مصروف زندگی ہے، جہاں ہر شخص اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہے اور دوسروں کی جانب دیکھنے کا وقت کم ملتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ دنیا بدلی ہے، مگر اس میں وہ خوبصورتی بھی موجود ہے جو پہلے کے زمانے میں تھی۔ آج کے دور میں اگرچہ لوگ کم ملتے ہیں، مگر جب کوئی پریشانی آتی ہے، تو وہی سوشل میڈیا جو بعض اوقات خوف پھیلاتا ہے، مدد کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ اگر کسی کو خون کی ضرورت ہو، کسی کے گھر میں کوئی مالی مسئلہ ہو، یا کسی کو ہنگامی مدد چاہیے ہو، تو چند لمحوں میں ہزاروں لوگ اس کی مدد کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ جدید ذرائع نے انسانی ہمدردی کو ایک نیا رخ دیا ہے—بس فرق یہ ہے کہ اب مدد کرنے کا طریقہ بدل گیا ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم ماضی اور حال کے درمیان ایک توازن پیدا کر سکتے ہیں؟ یقیناً کر سکتے ہیں۔ ہمیں جدید سہولیات کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، مگر ساتھ ہی تعلقات کی وہ خوبصورتی بھی واپس لانی چاہیے جو پہلے کے زمانے میں تھی۔ ہمیں ٹیکنالوجی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے، مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے حقیقی رشتوں کو وقت دیں۔ اگر ہم اپنے پڑوسیوں سے اچھے تعلقات رکھیں، دوسروں کی مدد کریں، اور ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شریک ہوں، تو ہم جدید دنیا میں بھی وہی اپنائیت اور بھروسہ پیدا کر سکتے ہیں جو کبھی ہمارے معاشرے کا حسن ہوا کرتا تھا۔ حفاظت صرف آلات اور دیواروں میں نہیں، بلکہ ہمارے رویوں میں بھی ہے۔ اگر ہم بھروسہ، محبت اور تعاون کو فروغ دیں، تو ہم ایک ایسی دنیا تخلیق کر سکتے ہیں جہاں جدید سہولیات اور پرانے تعلقات ایک ساتھ چلیں۔ ہمیں وہ پرانا خلوص اور اعتبار واپس لانا ہے، مگر ایک نئے انداز میں—جہاں بھروسہ بھی ہو، ترقی بھی ہو، اور زندگی کا حسن بھی برقرار رہے۔

مزیدخبریں