پٹرول کی قیمت میں اضافہ سے مہنگائی کا نیاطوفان
حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے ثابت کیا ہے کہ اس نے ملک کو پوری طرح بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ہاتھ میں دیدیا ہے اور اب سارے فیصلے آئی ایم ایف کی مرضی ہی سے ہوں گے۔ اس سے پہلے ڈالر کی قدر کے تعین کے سلسلے میں جس طرح اوپن مارکیٹ کو اختیار دیا گیا اس سے بھی واضح طور پر یہی پتا چلتا ہے کہ اب معاملات ہماری حکومت نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی مرضی سے طے ہوں گے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے تک یہ لوگ آئی ایم ایف کے شکنجے سے ملک کو نکالنے کے لیے بڑے بڑے دعوے کررہے تھے لیکن اقتدار ملتے ہی وہ سب دعوے ایک طرف رکھ کر انھوں نے آئی ایم ایف کی دہلیز پر سر جھکا دیا۔ اب سارا ملبہ عمران خان کی سابقہ حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کو کی حکومت محض تو پونے چار سال تک برقرار رہی جبکہ اس سے پہلے تقریباً نصف صدی کے دوران مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مرکز میں تین تین بار برسر اقتدار رہیں اور بہت سے مسائل ان دونوں جماعتوں کے پیدا کردہ ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 50 روپے سے زائد اضافے کی قیاس آرائی کی جارہی تھی، حکومت نے کوشش کی کہ عوام پر کم از کم بوجھ منتقل کیا جائے۔ یہ بات وہ صاحب کہہ رہے ہیں جنہیںان دعوو¿ں کے ساتھ وطن واپس لایا گیا تھا کہ معیشت اس وقت جس عدم استحکام کا شکار ہے اس کا حل صرف اسحاق ڈار ہی نکال سکتے ہیں۔ ڈار صاحب نے بھی واپسی پر بڑی بڑی باتیں کر کے قوم کو یہ بتایا تھا کہ اب وہ آگئے ہیں تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے لیکن مسئلے حل ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئے ہیں۔ اب ذمہ داری اٹھانے کی بجائے وہ بار بار عمران خان کا نام لے رہے ہیں۔ کوئی ان سے یہ پوچھے کہ 2018ءکے عام انتخابات سے پہلے کون سا ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں جو آپ پی ٹی آئی حکومت کو کوس رہے ہیں۔
اسحاق ڈار نے ہفتے کے روز اپنی پریس کانفرنس کے دوران یہ بھی خوب منطق پیش کی کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ مصنوعی قلت پیدا کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ اس بیان کے ذریعے بالفاظِ دیگر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکمران اتحاد کی نااہلی کے بارے میں عمران خان اور ان کے ساتھی جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ درست ہے۔ اگر ملک کے کسی بھی حصے میں کسی شے کی مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کو پریشان کیا جارہا ہے تو حکومت کس مرض کی دوا ہے؟ ریاستی مشینری پر سرکاری خزانے سے خطیر رقم اسی لیے خرچ کی جاتی ہے کہ وہ ایسے مسائل کا حل فراہم کرے اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرے جو ایسے مسائل پیدا کر کے عوام اور حکومت کے درمیان خلیج بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔ ہر طرح کے وسائل کی موجودگی کے باوجود اگر مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کا علاج عوام پر بوجھ ڈال کر کیا جانا ہے تو پھر اسحاق ڈار اور دیگر حکومتی بزرجمہران کو اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے فوری طور پر اقتدار سے الگ ہو جانا چاہیے اور کسی اور کو مسائل پر قابو پانے کے لیے موقع دینا چاہیے۔
عوام کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں مزید پریشانیاں دینے کے بعد آئل اینڈ گیس ریگو لیٹری اتھارٹی(اوگرا) کو یاد آیا ہے کہ پٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی کی جاسکتی ہے، لہٰذا بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف فوری سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اوگرا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی کوئی قلت نہیں، ذخیرہ اندوزوں نے مصنوعی بحران پیدا کیا۔ جب آپ کو پتا ہے کہ مصنوعی بحران پیدا کیا گیا تو پھر بحران پیدا کرنے والوں کی بجائے عوام کو سزا کیوں جارہی ہے؟ لائسنس منسوخ کرنے کی جو دھمکیاں قیمتوں میں اضافے کے بعد دی جارہی ہیں اور صوبائی چیف سیکرٹریز کے ذریعے ضلعی انتظامیہ کی مدد سے معاملہ جلد نمٹانے کی جو بات اب کی جارہی ہے اس پر پہلے غور کیوں نہیں کیا گیا؟
ادھر، ٹرانسپورٹرز نے ڈیزل کی قیمت بڑھنے اعلان ہوتے ہی کرایوں میں 10 فیصد تک اضافہ کردیا ہے۔ آل پاکستان پبلک ٹرانسپورٹ اونرز فیڈریشن اور تنظیم تاجران پاکستان کا کہنا ہے کہ کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں35 روپے فی لیٹر اضافہ یکسر مسترد کرتے ہیں۔ حکومت فوری طور پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ واپس لے۔ دوسری جانب، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ عوام کو طفل تسلیاں دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے کیا۔ ڈالر کو بھی آئی ایم ایف کی شرائط پر کھلا چھوڑا۔ تیل کی قیمتیں بڑھانے پر نواز شریف بہت پریشان ہیں۔ ہم عمران خان کی نااہلیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
حکمران اتحاد نے پٹرولیم مصنوعات سے مہنگائی کا جو نیا طوفان پیدا کیا ہے عوام میں اس کا سامنا کرنے کی سکت بالکل نہیں ہے کیونکہ پہلے ہی افراطِ زر میں اضافے نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔ وفاقی حکومت میں شامل جماعتوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ ایسے عوام دشمن فیصلوں کے بعد وہ کس منہ سے عام انتخابات میں عوام کا سامنا کریں گے۔ یہ بات اب مزید واضح ہوگئی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں وفاقی حکومت میں شامل جماعتوں کو عوامی مینڈیٹ مشکل ہی سے حاصل ہو پائے گاکیونکہ عوام پر گزشتہ ساڑھے مہینے کے دوران مہنگائی کا جو بوجھ ڈالا گیا ہے وہ اس کی وجہ سے صرف پریشان ہی نہیں، سخت مضطرب اور حکومتی پالیسیوں سے نالاں بھی نظر آتے ہیں۔