اصلاحات کا عمل درد ناک اُسی صورت ممکن ہے اگر آپ بے اختیار ہیں ۔ طاقت کے اُونچے منبر پر بیٹھ کر ایسا کہنا قوم کے نزدیک واقعتا درد ناک ہے ۔ مزید برآں کرپٹ مافیا کی بیخ کنی ہی تو آپ کی 24" سالہ" جدوجہد کا بنیادی پتھر تھی ۔ اب اور کتنا وقت چاہیے ۔ ہر دور کے حکمران اپنے عہد حکومت سے آگے کا وقت چاہتے تھے ۔ وہی کام اب بھی ہو رہا ہے۔ عوام کی مشکلات کا کس قدر احساس ہے۔ ہر ماہ بجلی ، گیس ، پٹرول کی قیمت بڑھانے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی ہر لمحہ بڑھتی رفتار میں یہ تکرار کہ" گھبرانا نہیں" ۔ کیا واقعی ایسا کہتے ہوئے" آپ "کے دل میں سکون کی لہر دوڑتی ہے۔ قومی سے لیکر عالمی بینک تک شرح نمو میں کمی ۔ بجٹ خسارے کی نوید سنا چکے ہیں ۔ رواں برس ہی نہیں ۔ اگلے کئی سال ایسی ہی جمود کی کیفیت کی کہانیاں ہیں ۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ کیا ہوا ؟ پہلے والے بھی بے روزگار ہو گئے ۔ بیرونی قرضے نہیں لیں گے ۔ سالوں کی بجائے ابتدائی ایام میں ریکارڈ قرضہ لے لیا ۔ ٹیکس چوروں سے لیکر قوم پر خرچ کرنے کا وعدہ ۔ یہاں بھی ترتیب اُلٹی پڑ گئی ۔ قوم پہلے سے بھی زیادہ بدحال ہوگئی ۔ کرپٹ عناصر کو جیلوں میں ڈالا ضرور مگر جیلوں کو گھروں سے بھی زیادہ پُر آسائش بنا دیا۔ واقعی کسی ڈاکو کو این آر او نہیں ملا البتہ سرکاری سہولتوں کے جلو میں کچھ بیرون ملک سدھار گئے ۔ کچھ پروٹوکول میں اسمبلی اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ سرکاری محلات کو تعلیمی مراکز میں بدلنے کا جوش بھی دب گیا ۔ ہر سال 4 نئے سیاحتی مراکز متعارف کرانے کا وعدہ بھی وفا چاہتا ہے۔ سیاست کو فروغ دینے کے جوشیلے جذبات" ٹویٹ در ٹویٹ" کی گرمی سے ٹھنڈی ٹھار برف بن گئے ۔ سب سے بڑا وعدہ ۔ جدوجہد کا مرکزی پل ۔ سب سے بڑا مذاق بن گیا ۔ بدعنوانی کے خلاف برسر عمل اداروں خصوصاً "نیب" کو مضبوط کرنے کا وعدہ ۔ "نیب قانون میں ترمیم" تمام ادوار کے جائزے ۔ مطالعہ کے بعد یقین ہو چلا ہے کہ 25" کروڑ "میں سے ایک کروڑ اشرافیہ پوتر ذات ہے۔ صرف عوام ہی بدعنوان ہیں۔ قوم سے سچ بولنے ۔ ظلم ختم کرنے ۔ ہر ماہ اسمبلی میں2 مرتبہ جوابات دینے کا وعدہ ۔ کتنے وعدے تھے جو دلکش تقریروں میں گُم ہو گئے ۔ غریبوں کی فلاح کے اقدامات معیار زندگی کو بہتر بنانے کے خوبصورت الفاظ کے اثرات 50,40 روپے کلو والی سبزی ۔ 300,200 تک پہنچ گئی۔ یہ بھی کہا تھا کہ تبدیلی کے لیے رضا کار بن کر گھر گھر جائیں گے۔ یہاں "وزرائ" تو کیا رکن اسمبلی کا اردلی نظر نہیں آتا۔ ملک لُوٹنے والوں کا کڑا احتساب ، بہت شور بپا ہوا ، ہا ہا کار مچی ، عوام نے بھی سکون کا گھونٹ بھرا ، نتیجہ ، سب دُھل دھلا کر سرکاری عزت کے ساتھ رہا ہوگئے ۔ خوف کا بت کیا توڑتے ، دہشت ، جرائم ، ظلم نے رہا سہا سکون بھی چھین لیا ، عوام کے حلق خشک کر دئیے ، عجب افراتفری ہے ، نا اہلی کا راج ہے۔ ذاتی مفادات نے سنہری آفاقی اصول بھی بُھلا دئیے ۔ عوام کے لیے کچھ نہیں ، وعدوں کے سوا ، جبکہ اشرافیہ کے ہاں عیش ہی عیش ہے ۔ یہ کلچر بھی ختم کرنا تھا ۔ ختم تو نہ ہوا بلکہ چکا چوند نے آنکھیں بندکر دیں ۔ بتائیے کیا اب بھی عوام نہ گھبرائیں۔
"کرونا وائرس "نے انتہائی تشویشناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ چین کو گھمبیر حالات کا سامنا ہے۔ پے در پے بند ہوتے پیداواری یونٹس یقیناً معاشی گراوٹ کا باعث بنیں گے۔ یقینی طور پر چین اِس تکلیف سے نجات حاصل کرلے گا اُس قوم میں بہت بڑی خوبی اور صلاحیت ہے ہر بحرانی کیفیت ، دبائو سے نمٹنے کی اہلیت رکھتی ہے کیونکہ جانتی ہے کہ اپنے مفادات کی حفاظت کیسے کرنی ہے۔ بد قسمتی کہہ لیں کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے نہ اہلیت کی ۔ کمی ہے تو اچھی قیادت کی ۔ دنیا کے کسی بھی خطہ میں رونما ہونے والے حالات ۔ بیماری سے محفوظ رہنا ممکن نہیں اسلئیے حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستانی باشندوں کی محفوظ منتقلی کو ممکن بنائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024