دربار نبویؐ کے تاریخی فیصلے
جی آراعوان
دربار نبویؐ کے تاریخی فیصلے
’’بنی ثعلبہ کے غزوہ سے واپسی پر ایک اونٹ حضور پاکؐ کی خدمت ِ اطہر میں حاضر ہوا اور کچھ عرض کیا۔ حضور پاکؐ نے صحابہ کرام سے فرمایا ’’جانتے ہویہ اونٹ کیا کہتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی اللہ اور اس کا رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔ حضور پاکؐ نے فرمایا یہ اونٹ فریاد کر رہا ہے کہ اس کا مالک آج تک اس سے سخت کام لیتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ اس کی پشت زخمی ہو گئی۔ اب اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘
یہ اقتباس پروفیسر قادری اورنگزیب کی مرتب شدہ کتاب دربار نبویؐ کے تاریخی فیصلے سے لیا گیا ہے۔ کتاب عمر سنز، قذافی مارکیٹ اردو بازار سے دستیاب ہے جس کی قیمت 200 روپے ہے۔ کتاب کا انتساب پڑھنے والوں کے نام کیا گیا ہے۔
کتاب پر ثمینہ شہزاد نے اپنی رائے میں لکھا ہے کہ آنحضرتؐ کی اس دنیا میں تشریف آوری کئی حیثیتوں میں تھی آپؐ پیغمبر تھے۔ ایک لاثانی شریعت کے موسس تھے ،فاتح تھے، امیر لشکر تھے اور سب سے بڑھ کر قاضی بالحق تھے۔ اپنی اس مقدس حیثیت سے نزاعات اور مقدمات کے فیصلے صادر فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ کے فیصلے ہر زمانے اور ہر مقام کے باشندوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔
نبی کریمؐ بحیثیت ماہر ابلاغ
’’آنحضرتؐ نے جزیرہ نمائے عرب کے علاوہ دوسرے ملکوں کے لوگوں کو بھی اسلام سے آشنا کرنے کے لئے وہاں کے حکمرانوں اور دوسرے ممتاز لوگوں کو تحریر ی خطوط کے ذریعے اسلام کی دعوت دی ۔ہر درد مند انسانیت کا انسانی اور اخلاقی فرض ہے کہ اگر کسی دوسرے شخص کو نقصان سے دوچار ہوتے دیکھے تو حتی الامکان اس کی مدد کرے۔ حضور پاکؐ نے اسی نکتہ نظر کے باعث مختلف بادشاہوں اور شخصیات کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دی۔ ‘‘
یہ سطریں وسیم اکبر شیخ کی کتاب ’’نبی کریمؐ بحیثیت ماہر ابلاغ ‘‘سے لی گئی ہیں کتاب کے ناشر حکیم عمار وحید سلیمانی اور مطبع حاجی حنیف پرنٹر لاہور ہیں جبکہ کتاب کی قیمت 280 روپے ہے۔ کتاب ، ادبیات رحمان مارکیٹ غزنی سٹریٹ ، اردو بازار لاہور نے شائع کی جو ادارہ مطبوعات سلیمانی، رحمانی سٹریٹ اردو بازار سے دستیاب ہے۔
ہندو فاصل مسٹر سی این مہتا نے لکھا ہے کہ اسلام کا پیغام اب کسی قوم کا حصہ نہیں بلکہ تمام دنیا والوں کا ورثہ ہے۔پروفیسر ڈاکٹر آفتاب احمد خان کہتے ہیں حضور پاکؐ کے خطوط بہترین دعوت اسلام کا ذریعہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم اکبر شیخ کا خیال ہے کہ آج کی اس مادہ پرستی، دہشت گردی، انتہا پسندی کے دور میں حضور پاکؐ کے ان خطوط کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
منزل منزل ،بچوں کیلئے ناول
’’جاتی سردیوں کا موسم تھا، کارسڑک سے اتر کرنیم پکے راستے پر روانہ تھی کہ خالد نے شیشہ نیچے کر کے اپنا دائیاں ہاتھ باہر نکالا تو حرا احمد کی نظر پڑ گئی، اس کی ہتھیلی کے بیچوں بیچ ایک بڑا تل تھا ہو بہو سالار کی طرح ان کا دل خوشی سے جھوم اٹھا، اب انہیں سو فیصد یقین ہو گیا کہ خالد انہیں کا بیٹا ہے۔‘‘
یہ اقتباس حفیظ طاہر کی تخلیق منزل منزل سے لیا گیا یہ بچوں کے لئے ایک ناول ہے۔ حفیظ طاہر عینک والا جن کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔کتاب کے طابع بی پی ایچ پرنٹرز لاہور ہیں،مصنف نے کتاب کا انتساب اپنے بیٹے حمزہ بن طاہر اور پیاری بیٹی سسمن طاہر کے نام کیا ہے۔
کتاب پر مستنصر حسین تارڑ اپنے اظہار خیال میں لکھتے ہیں اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ ایک بڑا ناول لکھنے سے بڑا ادبی معرکہ کیا ہے تو میں کہوں گا بچوں کیلئے ناول لکھنا اور اگر کوئی یہ سوال کر ے کہ کلاسک ڈرامہ پروڈیوس کرنے سے بڑا کارنامہ کیا ہے تو میں یہ بیان کروں گا کہ بچوں کے لئے ڈرامہ تخلیق کرنا۔ حفیظ طاہر وہ منفرد شخص ہیں جنہوں نے یہ دونوں کارنامے انجام دئیے ہیں۔ آمنہ مفتی کا خیال ہے برسوں پہلے ٹی وی سے عینک والا جن ٹیلی کاسٹ ہوا۔ جس قدر مقبولیت اس سیریل کو ہوئی اور کسی کو نہیں ہوئی۔ اس ناول نے بھی مجھ پروہی کیفیت طاری کر دی ہے ،جو اس سیریل کو دیکھتے ہوئے ہوئی۔