اساتذہ کی اہمیت اورمعاوضے
محمد ریاض
جس معاشرے میں انسانی عظمت زوال پذیر ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا اور خاص کر تعلیم یافتہ طبقہ ہی اگر بنیادی ضروریات زندگی تک رسائی سے محروم ہو تو وہ معاشرہ نہ صرف زنگ آلود بلکہ جانوروں سے مماثلت رکھتا دکھائی دیتا ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ میں اساتذہ کا پیشہ ایک ایسا پیشہ ہے جو دوسرے پیشوں کو تخلیق کرتا ہے اور اس طرح سب سے بڑھ کر ملک کی تعمیر و ترقی میں ممدو معاون طبقہ اساتذہ کا ہی ہے۔ اساتذہ سکول کے ہوں یا کالج یا یونیورسٹی کے وہ طالب علموں کو صرف تعلیم ہی نہیں دیتے بلکہ شعور اور حوصلہ بھی دیتے ہیں اور وہ صحیح سمت چلنے کے لئے رہنمائی بھی کرتے ہیں وہ یہ بھی درس دیتے ہیں کہ شخصی صلاحیتوں کو کیسے اجاگر کرنا ہے اور اپنی کمزوریوں اور خوف پر کیسے قابو پانا ہے۔
Aristotle آرسٹوٹل کے بقول
"Those Who educate children well are more to be honoured than they who produce them, for these only gave them life, those the art of living well."
( یعنی وہ لوگ جنہوں نے بچوں کو تعلیم دی وہ اُن لوگوں سے زیادہ قابل احترام ہیں جنہوں نے اُنہیں جنم دیا کیونکہ جنم دینے والوں نے ان کو زندگی دی جبکہ تعلیم دینے والوں نے بچوں کو زندگی گزارنے کا فن سکھایا۔)
مندرجہ بالا تمہید سے یہ بتانا مقصود تھا کہ ہمارے معاشرے میں اساتذہ کا احترام مفقود ہے بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اساتذہ کا احترام و عزت شاید ایک تھانہ محرر اور ریوینیو ڈیپارٹمنٹ کے پٹواری کی سطح سے بھی کم درجہ پر ہے۔ اس کے علاوہ ان کے طرز زندگی اور معاشی معاملات کو دیکھا جائے تو اس طبقہ کا ایک بہت بڑا حصہ تنگ دست اور کسی نا گہانی حادثہ سے نپٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اُنہیں اپنی سانس کی ڈوری قائم رکھنے کے لیے انتھک تگ ودو کرنی پڑتی ہے۔ اور پھر بعض اوقات ذہنی تناؤ کا شکار ہو کر دنیا فانی سے رحلت کر جاتے ہیں۔ یہ تعلیم یافتہ طبقہ کی نہ صرف بہت بڑی توہین ہے بلکہ روح انسانی کے لیے سمِ قاتل ہے۔ وہ اساتذہ جو ماضی کو زندہ رکھنے اور حال کو سمجھنے میں مددگار ہوتے ہیں اُنہیں معاشی تنگی کا شکار رکھنا کہاں کا انصاف ہے۔ اساتذہ کی عظمت کے اعتراف میں ہر سال دنیا میں ٹیچرز ڈے منایا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں ٹیچرز ڈے واجبی طور پر منایا تو جاتا ہے مگر اربابِ اختیار یہ نہیں دیکھتے کہ وہ ٹیچرز کو اُن کی زندگی میں آسانیاں لانے اور اُن کا سٹیٹس اپ گریڈ کرنے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔
حقیقت حال کو اگر دیکھا جائے تو اُن اساتذہ اور پروفیسرز صاحبان کی حالت نہایت قابلِ رحم ہے جو کہ فی لیکچر معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ بلکہ حکمرانوں کے لیے یہ آب انفعال میں ڈوبی ہوئی کیفیت ناقابل بیان حد تک شرمندگی کا باعث ہونی چاہیے۔ حکومت اساتذہ کی عزت کی تلقین کرتی ہے لیکن خود نہیں کرتی۔ ایسے اساتذہ جو فی لیکچر معاوضہ وصول کرتے ہیں ان کی کثیر تعداد مختلف کالجز اور سکولز میں سیکنڈ شفٹ میں پڑھاتی ہے۔ سیکنڈ شفٹ کا اجرا بعض باشعور اساتذہ اور گراں قدر صحافیوں کی سفارشات پر 2002ء میں اس وقت کے پنجاب کے وزیر تعلیم جناب عمران مسعود نے شروع کروایا تھا۔ یہ تعلیمی سرگرمیوں کے بڑھاوے کے لیے ایک انتہائی سلیقہ مند قدم تھا کیونکہ دوپہر ایک بجے کے بعد کالجوں اور سکولوں کی عمارات خالی دستیاب تھیں اور ان کا کوئی مصرف نہ تھا۔ اس کا بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کے بے شمار ملازمین مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول میں کامیاب ہوئے اور طالب علموں کی ایک کثیر تعداد جو کالجوں میں مارننگ کلاسز میں میرٹ پر داخلہ لینے سے محروم رہتے تھے انہیں میرٹ ہی کی بنیاد پر ایوننگ کلاسز یعنی سیکنڈ شفٹ کی کلاسز میں داخلے کا موقع میسر آیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پچاس ہزار کے لگ بھگ طلباو طالبات پنجاب کے مختلف کالجوں و سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ ان میں پانچ ہزار کے قریب طالبات ہیں۔ یہ سٹوڈنٹس نہ صرف گریجوایشن ( بی اے، بی ایس سی، بی کام وغیرہ) بلکہ پوسٹ گریجوایشن اور ماسٹر ڈگری کلاسز میں داخل ہیں اور 2002ء سے لے کر آج تک بے شمار طلبا و طالبات فارغ تعلیم ہو کر مختلف سرکاری محکموں اور پرائیویٹ اداروں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ذرا سوچیئے اگر سیکنڈ شفٹ کا اجرا نہ ہوتا تو کم مالی وسائل اور ضرورت مند مردوزن کہاں جاتے ظاہر ہے وہ تعلیم چھوڑ دیتے اور اپنی قسمت کو کوستے ہوئے ذہنی خلفشار کا شکار ہو کر ایک بیمار معاشرے کو جنم دیتے۔
مندرجہ بالا اقدامات سے طلبا و طالبات نے تو فائدہ اُٹھا لیا اور وہ معاشرے کے صحت مند عناصر بھی بن گئے لیکن کسی کو کیا معلوم ان بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ کا کیا حشر ہوا اور ہو رہا ہے آنکھیں ہوتے ہوئے بھی شاید ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ اساتذہ نہ تو شور مچاتے ہیں جلسہ جلوس کرتے ہیں اور نہ ہی تقاضائے محبت و رغبت کرتے ہیں۔ یہ ان کی شرافت کی انتہا اور حکمرانوں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان اساتذہ کا معاوضہ فی لیکچر اتنا قلیل ہے کہ بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ کیونکہ جب مختلف طبقات زندگی سے ان کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے اور ان اساتذہ کے ساتھ ایک گھناؤنا مذاق نظر آتا ہے اور ان کی زندگیاں گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبی نظر آتی ہیں۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ سیکنڈ شفٹ اساتذہ کے لیے 2002ء میں حکومت پنجاب نے ایک نوٹیفیکیشن کے اجرا سے معاوضہ فی لیکچر کم از کم 300 روپے اور زیادہ سے زیادہ 500 روپے متعین کیا جو کہ اللہ جھوٹ نہ بلوائے آج بھی یعنی 2017ء میں بھی وہی ہے اور مجال ہے اسے ذرا خراش تک بھی آئی ہو۔ واضح ہو کہ معاوضہ 300 روپے فی لیکچر سے زیادہ نہیں دیا جاتا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2002ء میں عمارت بنانے والے ایک مزدور کی دیہاڑی 120 روپے اور مستری کی دیہاڑی 250 روپے تھی جو کہ 2017ء میں بڑھ کر مزدور کی 900 روپے یومیہ اور مستری کی 1500 روپے یومیہ ہو چکی ہے۔ لیکن سیکنڈ شفٹ اساتذہ جو کہ قوم کے معمار ہیں کو مزدور اور مستری کے برابر بھی نہ سمجھا گیا۔ وہ آج بھی فی لیکچر وہی معاوضہ لے رہے ہیں جو 2002ء میں وصول کرتے تھے۔ جبکہ پندرہ سالوں میں مہنگائی کم و بیش دس گنا بڑھ چکی ہیے۔ آفرین ہے ان اساتذہ پر جو کہ حقیر سے معاوضے پر بھی اُسی جوش و جذبہ سے درس و تدریس کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی قدر کرنی چاہیں اور زبان ہونے کے باوجود ان بے زبانوں کی خاموش زبان کو سمجھنا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ یہ اساتذہ مایوس ہوں اور معیار تعلیم میں گراوٹ آئے ضرورت اسی امر کی ہے کہ اس اہم معاملہ پر توجہ دی جائے اور ان کا معاوضہ بڑھا کر حال کے تقاضوں کے مطابق فی لیکچر 2000 تا 5000 روپے مقرر کیا جائے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو بقول شاعر؎
چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا
شباب سیر کو آیا تھا سوگوار گیا
مخلص اساتذہ معاشرے کے ہیرے ہیں ان کی زندگیوں کو پیچیدہ نہ بنایا جائے
بقول اقبال؎
جس معنی پیچیدہ کی تصدیق کر لے دل
قیمت میں بہت بڑھ کے ہے تا بندہ گُہرسے