میرا کالم ’’فلاپ سیاسی شو‘‘ گزشتہ ہفتے شائع ہوا تو پی ٹی آئی کے سپورٹرز اور مختلف عہدیداران کی طرف سے مجھ پر تنقید شروع ہو گئی جس میں پی ٹی آئی کے سرکردہ لیڈر بھی شامل تھے بلکہ ان میں میری ایک منہ بولی بیٹی تنزیلہ جو مجھ سے روٹھ ہی گئی ہے۔ کسی نے مجھے ن لیگ کا حمایتی کہاتو کوئی مجھے ’’جانبدار‘‘ قرار دینے لگا۔ میںنے پھر سے اپنا کالم پڑھا لیکن اس میں مجھے کوئی بھی قابلِ تنقید بات نظر نہ آئی۔ ایک جملہ ضرور تھا جس پر بڑااعتراض ہوا کہ ’’نواز شریف نااہلی کے فیصلے کے باوجود مقبولیت کی اعلیٰ معراج پر ہیں‘‘ کچھ لوگوں کے نزدیک میرا یہ جملہ بڑا ہی ناقابل برداشت رہا۔ لیکن میں یہ کہتا چلوں کہ کبھی کسی بھی حوالے سے کسی کے لیے کبھی میری تحریر یا رول جانبدارانہ نہیں رہا۔ ہمیشہ فیکٹ پر لکھا اور نہایت دیانت داری کے ساتھ اپنی آراء قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی۔ میںاصول اور فیکٹ سے ہٹ کر کبھی کچھ ایسا لکھنے کی جسارت کر ہی نہیں سکتا جس میں سچائی نہ ہو اور جس کا محور محض کسی مفروضے پر مبنی ہو۔
بات ’’فلاپ سیاسی شو‘‘سے چلی تھی۔ پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے بارے میں اُن کی سیاسی حیثیت کے حوالے سے میرا جو تاثر ہے اور جو تبصرہ اور تجزیہ پیش کرتا ہوں اُس پر اب بھی قائم ہوں لیکن یہ بات بھی تسلیم کرتا ہوں کہ ملک میں اچھی، فعال اور مضبوط اپوزیشن نہ ہو تو جمہوریت کبھی بھی فعال اور مضبوط نہیں رہتی۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اب تک کسی مضبوط اور فعال اپوزیشن کا سامنا نہیں رہا۔ کسی بھی جمہوریت میں ایک فعال اپوزیشن کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی جسم کے لیے روح کا ہونا۔
اب یہ سمجھنے کی بات ہے کہ ہمارے ملک کی 70سالہ تاریخ میں جتنے بھی آئے اُس میں جمہوریت کتنے عرصے قائم رہی۔ اگر ختم ہوئی تو اُس کے ختم ہونے کے اسباب اور محرکات کیا تھے؟ ہر فوجی آمر نے جو الزامات عائد کر کے بساط لپیٹی۔ اُس کے پس منظر میں یقینا یہ بات نمایاں نظر آئے گی کہ ہر جمہوری دور میں کمزور اپوزیشن کے رول نے ہی اُسے ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔پیپلز پارٹی پر بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر تی رہی ہے۔ اُس نے اس پانچ سالہ جمہوری دور میں بھی ن لیگی حکومت کے خلاف وہ ’’محاذ‘‘ قائم نہیں کیا جس کی ایک اپوزیشن جماعت سے امید کی جاتی ہے۔ جہاں اپوزیشن مضبوط نہیں ہوتی وہاں حکومتِ وقت کو من مانی کا موقع مل جاتا ہے اور اُس کی ڈگر سیدھی نہیں رہتی جس کے باعث ایک جمہوری دور بھی ایک آمر جیسا لگنے لگتا ہے۔میں پی ٹی آئی کے بارے میں کچھ بھی کہوں، اُس کے سربراہ کے بارے میں کوئی بھی ذاتی رائے رکھوں لیکن یہ بات حقیقت کے قریب تر ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی ہی ہے جو حکومتِ وقت کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اگرچہ نیشنل اسمبلی میں پیپلز پارٹی اپنے’’نمبرز‘‘ کے باعث دوسری بڑی پارلیمانی جماعت کا درجہ رکھتی ہے اور اس وجہ سے اُسے پارلیمانی رولز اور روایات کے مطابق ’’اپوزیشن‘‘ کی حیثیت حاصل ہے جبکہ خورشید شاہ نیشنل اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اس جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لیکن دیکھا گیا ہے نیز دیگر جماعتوں کا بھی الزام ہے کہ پیپلز پارٹی نے کبھی ایشوز کی سیاست نہیں کی بلکہ ہمیشہ حکومت کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے بلکہ قوم نے اپوزیشن والے کردار کو بہت عقب میں جاتے دیکھا۔ اگرچہ ذاتی معاملات پر کچھ تحفظات کے باعث آج کل ن لیگی حکومت اور پیپلز پارٹی میں کافی دوریاں ہیں۔ لیکن یہ کہنا پڑے گا کہ یہ ’’دوریاں‘‘ ایشوز کے باعث ہوتیں تو پیپلز پارٹی کے اس رول کو یقینا سراہا جاتا مگر چونکہ ایسا نہیں ہے اس لیے پیپلز پارٹی کو بحیثیت اپوزیشن جماعت وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی جو عوام الناس میںاُسے حاصل ہونی چاہیے تھی۔
تمام نقاد اور تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں اور سب کی رائے بھی یہی ہے کہ نیشنل اسمبلی میں ’’نمبرز گیم‘‘ کے باعث اگرچہ پی ٹی آئی اپوزیشن والا اصل رول ادا کرنے سے قاصر ہے۔ مگر آنے والے الیکشن میں ن لیگ اگر دوبارہ جیت کر برسراقتدار آ جاتی ہے توپی ٹی آئی ’’نمبرز گیم‘‘ میں دوسری پوزیشن پر ہو گی۔ اُس سے ایک محترک اور فعال اپوزیشن جماعت کے رول کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جس سے جمہوی نظام یقینا فعال ہو گا۔ وہ شکایات جو اکثر ہمیں اپنی حکومت سے رہتی ہیں ایک مضبوط اپوزیشن کے باعث اُن تمام شکایات، معاملات اور مسائل میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔میں نے گوجرانوالہ ڈویژن کا تفصیلی سروے کیا ہے ۔ پی ٹی آئی گوجرانوالہ کے صدر چودھری محمد احمد چٹھہ (نوجوان قیادت) ہیں جو سابق سپیکر نیشنل اسمبلی چودھری حامد ناصر چٹھہ کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ چودھری محمد احمد چٹھہ نے گوجرانوالہ ڈویژن کے نامور سیاستدانوں مثلاً امتیاز صفدر وڑائچ ، نذر محمد گوندل و دیگر بڑے قد آور شخصیات کو پی ٹی آئی میں شامل کر لیا ہے۔ اسی قسم کے حالات پورے پاکستان میں بھی دیکھے جا رہے ہیں۔جس سے توقع کی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی کو کسی صورت بھی کمزور سمجھنا مناسب نہ ہو گا۔ یہ سال الیکشن کا سال ہے۔ کون ہارتا ہے اور کون جیت جاتا ہے یہ فیصلہ جولائی 2018ء میں پاکستان کے عوام کریں گے۔ جس کو اکثریت حاصل ہو گی وہ حکومت میں ہو گا جبکہ دوسری پوزیشن حاصل کرنیوالے کو اپوزیشن کا انتہائی اہم رول ملے گا۔ اب دیکھتے ہیں یہ رول قوم کسے تفویض کرتی ہے؟