کچھ لفظ اتنے خوب صورت ہوتے ہیں کہ سیدھے دل میں اتر جاتے ہیں۔ لفظ بھی انسانوں اور دیگر اشیاء کی طرح اپنا خاص رنگ رکھتے ہیں۔ معنی اور مفہوم بھی انہیں جاذبیت اور تاثیر عطا کرتے ہیں۔ محمل بھی ایک ایسا ہی لفظ ہے جسے دیکھیں تو آنکھوں کے سامنے ایک دل فریب منظر رقص کرنے لگے۔ تخیل دور صحرائوں میں اونٹوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں اور ان کے قدموں کی آواز کو دل موہ لینے والے سُر میں تبدیل کر دے۔ محمل کے اندر بیٹھی معشوق دور دیس اپنے پیا کے پاس جانے کے خیال میں راستے سے باتیں کرتی دل کے راز سناتی محسوس ہو۔
پچھلے دنوں بے پناہ خوب صورت مگر کم گو شاعر شعیب بن عزیز نے محمل کے نام سے شہر کے معروف سٹوڈیو میں ایک منفرد نمائش کا اہتمام کیا۔ جب تک اس نمائش کو دیکھ نہ لیا اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ محمل نام رکھنے کی وجہ کیا تھی۔ ٹھہریئے نمائش سے پہلے شعیب بن عزیز کے بارے میں بات کر لیتے ہیں۔ ایک ایسا انسان جو تخلیقی وفور سے سرشار ہے۔ وہ صرف شاعری میں ندرت کمال نہیں رکھتے بلکہ ان کا جمالیاتی ذوق ان کے ہر عمل بلکہ ہر لفظ میں جھانکتا ہے۔ تخلیقی اور ذہین شخص کی سب سے بڑی نشانی اس کی حسِ مزاح ہوتی ہے۔ مزاح پھوہڑ لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ شعیب بن عزیز کی حسِ مزاح کمال کی ہے۔ ان کے بہت سے فقرے سنہری حروف میں لکھنے کے لائق ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ سنبھل کر اور احتیاط سے زندگی کا رستہ طے کرنے کو ترجیح دی۔ ان کی ایمانداری اور اصول پسندی میں ان کی بیگم افشاں شعیب نے ہمیشہ معاونت کی۔ محمل کے قیام میں ان کی بیٹیوں نے جس طرح حصہ ڈالا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پورا خاندان جمالیاتی ذوق میں رنگا ہوا ہے۔ وہ ایک مخلص اور حسّاس انسان ہیں۔ صحافیوں اور ادیبوں شاعروں سے ان کی دوستی مثالی ہے۔ ’’محمل‘‘ کے بعد اگر وہ اپنے دوسرے منصوبے یعنی شاعری کی کتاب کو بھی منظر عام پر لے آئیں تو یہ بھی ایک احسانِ عظیم ہو گا کیوں کہ ایک عرصے سے ان کے کچھ اشعار ضرب المثل کی حیثیت کر چکے ہیں مگر شعیب صاحب ایک خاص معیار سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں غالب کی طرح انہوں نے بھی اپنی بہت سی شاعری ضائع کر دی ہو گی کیوں کہ ان کے اندر بیٹھے ناقد نے اسے پاس نہیں کیا ہو گا تاہم شاعری کی کتاب تو ملی جلی ہوتی ہے۔ کیا پتہ وہ تمام اشعار جن کو منظر عام پر نہیں لایا گیا عوام میں کس قدر مقبولیت حاصل کر لیں۔ جنوری کے موسم کے نام ان کا شعر:
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
جب سرکاری افسر تھے تو ان کے دفتر کی آرائش میں ایک خاص سلیقہ نظر آتا تھا۔ غرضیکہ لباس، گھر کی سجاوٹ اور زندگی کی طرف ان کا رجحان تخلیقی اور جمالیاتی ذوق کا حامل ہے۔ راہ چلتے جن چیزوں کو بہت سے لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں ان کی فن شناس آنکھیں اس کے باطن کا حسن جانچ کر اس کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں اس لئے جس بھی ملک گئے وہاں سے کوئی نہ کوئی نادر تہذیبی ٹکڑا اٹھا لاتے، جمع کرتے رہے، بچوں کی تعلیم و تربیت اور سرکاری نوکری سے فراغت کے بعد انہوں نے باقاعدہ اس پر توجہ دی اور یہاں کے کاریگروں سے تمام ملکوں کی منفرد نوادرات ڈیکوریشن کے لئے استعمال کی جانے والی اشیاء کو تیار کرایا۔ کاریگر کے ہاتھ کے ساتھ ان کا دماغ بھی کام کرتا رہا اور وہ پہلی بار پاکستان میں ایک چھت تلے دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس نمائش کو دیکھ کر محمل کے نام کے معنی کی تفہیم ممکن ہوئی۔ دنیا میں جہاں کہیں صحرا ہیں وہاں اونٹ کی سواری عام ہے اور اونٹ پر سواری کرنے والوں خصوصاً خواتین کے لئے ایک چھوٹا سا آشیانہ بنایا جاتا تھا جسے محمل کہا جاتا ہے۔ دیگر زبانوں میں اس کے مختلف نام ہیں مگر محمل کی شکل ہر جگہ ملتی جلتی ہے۔ محمل ادارے کے قیام سے جہاں شعیب بن عزیز کو اپنی برسوں کی خواہش کی تکمیل کا موقع ملا وہیں ہمارے کاریگروں کی صلاحیت بھی کھل کر سامنے آئی۔ سچی بات ہے ہمارے معاشرے میں بہت سے فنکار اور کاریگر موجود ہیں جو شاہکار تخلیق کر سکتے ہیں مگر ان کے پاس وسائل نہیں۔ وہ سب کسی نہ کسی شعیب بن عزیز کا انتظار کر رہے ہیں جو انہیں کوئی آئیڈیا دے اور وہ اسے ٹھوس شکل میں ڈھال کر اپنے فن کا اظہار کریں۔ شعیب صاحب نے یہ آغاز کر کے ایک نیک عمل کا آغاز کیا ہے۔ آرٹ کی ترویج ازخود ایک تعمیری عمل ہے۔ لاہور میں بڑے عرصے بعد اتنی شاندار نمائش کا اہتمام ہوا ہے۔ امید ہے اب لوگوں کے گھروں میں یہ شاندار اشیاء نظر آئیں گی۔ دعا ہے یہ کاروبار پھلے پھولے اور ہمارے معاشرے کا مثبت رنگ دنیا پر کھلے۔