جھوٹے گواہان کو سزا، تفتیشی افسر کی معطلی سے انصاف کی فراہمی یقینی ہو گی: عدالت عظمیٰ
اسلام آباد (صباح نیوز) سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمہ میں گرفتار شخص کو 16 سال بعد رہا کرنے کا حکم سنا دیا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ استغاثہ ملزم شاہ نواز کے خلاف کیس ثابت کرنے میں یکسر ناکام رہا اس لئے تمام سزائیں کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے ملزم شاہ نواز کی طرف سے عائشہ تسنیم ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر اپیل کی سماعت کی۔ ملزم نے 1992ءمیں تنویر احمد کو گجرات میں قتل کیا تھا جس پر ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ نے عمرقید کی سزا سنائی تھی۔ عدالت نے 2002ءمیں گرفتار ہونے والے ملزم کو 16 سال بعد بری کر دیا۔ دریں اثناءخیبرپی کے کے ضلع صوابی میں دل سوز خان کو مبینہ طور پر قتل کرنے والے دو ملزمان میر امان اور زرد زمان کی بریت کے خلاف اپیلیں خارج کر دیں۔ عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ قتل کے مقدمات میں جھوٹے گواہان کو سزائیں دی جائیں گی اور تفتیشی افسر کو بھی معطل کیا جائے گا تو انصاف کی فراہمی یقینی ہو سکے گی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں تو ایک اصول طے ہو گیا ہے کہ اگر کیس ثابت ہو جائے تو ملزم کو سزائے موت دی جاتی ہے کیس ثابت نہ ہو تو عمرقید سنا دی جاتی ہے۔ کسی میں ملزم کو بری کرنے کی جرا¿ت نہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اصل گواہ سامنے نہیں آتے۔ جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں۔ ملزم اصلی ہوتا ہے گواہ نقلی ہونے کی وجہ سے مقدمے کا نتیجہ صفر ہی ہو گا۔ سوچ رہے ہیں کہ جھوٹے گواہان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ جب تک تفتیشی افسر جھوٹے گواہان کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرے گا اس وقت تک نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ جھوٹے گواہان کے خلاف کارروائی سے ہی انصاف ممکن ہو گا۔ دریں اثناءایک اور مقدمے میں بابر اعوان ایڈووکیٹ کے تاخیر سے پیش ہونے پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے شعر پڑھا کہ ”ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں“ عدالت نے بابر اعوان کے توسط سے ملزمان کی بریت کے لئے دائر مقدمہ بھی خارج کر دیا۔