کاشتکاروں پر ظلم کب تک
پاکستان کی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جانا مبالغہ آرائی نہیں ہے مگر المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں زراعت پر اتنی توجہ نہ دی گئی جس کی وہ حق دار تھی چھوٹے کاشتکار جن کی زندگی کا دارومداران کی فصل پر ہوتا ہے مگر اکثر وہ شاکی رہتے ہیں کہ انہیں ان کی فصل کی صحیح قیمت وصول نہیں ہوتی گنے کی کریشنگ کا سیز ن شرو ع ہو تا تو گنے کا کا شتکا ر دل میں ہز ا رو ں خوا ہشیں لئے کہ اب کی با ر اُسے حکو مت کی طرف سے مقر ر کر دہ ریٹ پر شو گر ملز ما لکا ن گنے کی خر یدا ری کر یں گے کاشتکا ر جو کہ سخت گر می اور جا ڑ ے کی سر دی میں اپنا خو ن پسینہ بہا کر فصل تیا ر کر تا ہے اور اپنی مہینو ں کی محنت کا سکو ن سے پھل کھا ئے گا مگر وہ سڑ کو ں پر احتجا ج کر رہا ہے مل ما لکا ن کسا نو ں کا استحصا ل کر نے کا کو ئی مو قع ہا تھ سے جا نے نہیں دیتے دسمبر اور جنو ری کی شد ید سر دی میں جب گھرو ں میں بھی انسا ن کو رضا ئی میں سکو ن نہیں ملتا تو اس سر دی میں بییچا رہ کاشتکا ر اور ٹریکٹر ڈرا ئیور دو دو ہفتے کھلے آ سما ن کے نیچے سو نے پر مجبو ر ہے حکومت قیمت مقررکرتی ہے لیکن کاشتکاروں کی طرف سے یہ شکایات عام ہیں کہ ان کو ان کی فصل کے سرکاری طورپرمقررکردہ دام نہیں ملتے اس وقت گنے کاسیزن ہے اور جنوبی پنجاب کے گنے کے کاشتکار سراپااحتجاج ہیں کسان جوکہ جان جوکھوں میں ڈال کرسردی ہویا گرمی فصل کی تیاری کے لئے دن رات ایک کردیتا ہے مگر پچھلے چند سالوں سے زراعت کا شعبہ بحرانی کیفیت کا شکار ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ اس شعبہ کو نظراندازکرتے ہوئے دیگر معاملات پر توجہ دی جارہی ہے گندم ،کپاس جیسی قیمتی زرمبادلہ کمانے والی فصل کے بعد اب گنے کا نمبر ہے مگر گنے کے کاشتکارپریشانی میں مبتلاہیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ گنے کے کاشتکار سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیںشوگرملز مالکان گنے کے کاشتکاروں کا بری طرح استحصال کررہے ہیں ظلم یہ کہ جب کاشتکاروں نے ا حتجاج کا سوچا تو بجائے اس کے حکومت کی جانب سے ان کے مطالبات سنے جاتے اوران کا کوئی حل نکالا جاتا ان پر آنسوں گیس کے شیل پھینکے گئے اوردنیا کو یہ تماشا دکھایا گیا کہ وہ ملک جس کا انحصارزراعت پر ہے اور یہ اپنے کسانوں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں ان کی تذلیل کی جاتی ہے کسانوں نے پچھلے سال کی نسبت گنا زیادہ کاشت کیا ہے پچھلے سال پنجاب میںگنے کی فصل انیس لاکھ ایکڑ رقبے پر کاشت ہوئی تھی جبکہ اس سال اکیس لاکھ ایکڑ رقبے پر گنا کاشت کیا گیا لیکن کسان بچارے کو کیا معلوم تھا کہ زیادہ فصل کاشت کرنے کے بعد انہیں وہ ریٹ نہیں مل سکے جو حکومت مقررکرچکی ہے اب صورتحال یہ ہے کہ مقامی کاشتکاروں سے حکومت کے مقررکردہ نرخ 180 روپے فی من کے حساب سے گنا خریدنے کی بجائے ملز مالکان نے بروکروں کے ذریعے پرمٹ جاری کرکے گنا خریدنا شروع کردیا ہے ظلم تویہ ہے کہ بروکر ہی مل مالکان اور مل انتظامیہ کے پے رول پر ہیں جب کسان گنا کاشت کرکے فصل کاٹ کر انہیں ٹرک ،ٹریکٹرٹرالیوں میں لاد کر شوگر ملوں کے سامنے لائن لگاتو اس کے سرپر بجلی گر گئی کہ اسے گنے کی قیمت یہاں پر 150 روپے فی من مل رہی ہے اوراُوپر سے اس ریٹ پر کئی من کے حساب سے کٹوتی کی جارہی ہے اور مل مالکان حکومتی ریٹ پر گنے کی خریداری سے انکاری ہیںاب یہ خدشہ پیدا ہوگیاہے کہ بہت سے علاقوں میں نصف سے ذیادہ بچ جائے گا جب مارچ یا اپریل میں یہ ملیں بند ہونگیں یہی وہ خوف ہے جو گنے کے کاشتکاروں کو دامن گیر ہے اور ان کی راتوں کی نیندیں اور دن کا چین کھو گیا ہے بجلی ،پانی اورزرعی مداخل مہنگے ہو نے کے باوجود پچھلے 6,5 سال سے گنے کاریٹ وہی 180 روپے فی من ہے جبکہ فی ایکڑ پیداوار12 سوفی من سے کم ہو کر 6,5 سومن تک جا پہنچی ہے جس کی بنیادی وجہ ناقص بیج،کھاداورجعلی زرعی ادویات کے ساتھ ساتھ محکمہ زراعت کی طرف سے کاشتکاروں کو درست اور صحیح معلومات فراہم نہ کرنا جیسے تلخ حقائق ہیں اگر شوگرمل مالکان پر نظر دوڑائی جائے تو اکثریت مقتدرشخصیات جو کہ حکومت میں شامل ہیں ان کے نمائندے اور ورثاء بیٹھے ہوئے ہیں جن کی شکم سری ستر دہایئوں سے آج تک نہیں ہوسکی پاکستا ن کے کسا ن کو حکو مت نے لا وا ر ث اور ملز ما لکا ن کے رحم و کر م پر چھو ڑ دیا ہے ملز انتظامیہ کا شتکا رو ں کی نسبت برو کرز کو زیا دہ اہمیت دے رہی ہے کھیتو ں سے ملز تک کا شتکا ر گنا خو د پہنچا تا ہے را ستے میں آ نے وا لی تکا لیف کو بھی بر دا شت کر تا ہے مگر ضلعی انتظا میہ کی طر ف سے کا شتکا رو ں کی حو صلہ افزا ئی کر نے کی بجا ئے اُلٹا کا شتکا رو ں کے بنیا دی حقو ق سلب کئے جا رہے ہیں یہ مل مالکان حکومت سے چینی برآمدکرنے کے لئے فی کلو کے حساب سے ریبیٹ بھی حاصل کرچکے ہیں اس کے باوجود یہ گنے کے کاشتکاروں سے مقررقیمت پر گنا خریدنے پر راضی نہیں یہ طرز عمل گنے کے کاشتکاروں کے لئے ظلم وذیادتی کے مترادف ہے ان کی زندگی کا انحصار ہی ان کی فصل پر ہوتا ہے ہماری قومی پیداوارزراعت کا کلیدی کردار ہے حکومت شوگر مافیا کے دبائو میں آنے کی بجائے کسانوں کی کسمپرسی کی طرف توجہ دے تاکہ غریب کسانوں کے ساتھ کسی قسم کی ظلم وزیادتی نہ ہو انہیں پورا معاضہ دلایا جائے ااوراس مسئلے کا مستقل بنیادوں پر حل تلاش کیا جائے تاکہ اس کا استحصال نہ وہ فصلیں کاشت کرنے کے بعد احتجاج کرنے پر مجبور نہ ہو اور اسے وہ عزت مل جائے جس کا وہ حق دار ہے کسا نو ں کے نا م پر وو ٹ لینے وا لی سیا سی جما عتیں کسا نو ں کے مسا ئل حل کر نے کے حوا لے سے کو ئی کر دار ادا نہیں کر رہی ہیں جس سے کا شتکا ر دل بر دا شتہ ہو کر اپنی قیمتی فصلا ت جلا نے پر مجبو ر ہیں۔