سید قسور رضی کے نام
26 جنوری کی شب ایک عظیم انسان اورکتاب دوست، موسموں اور رویوں کی یخ بستگی کی نذر ہوگیا۔ سید قسور رضی راضی بارضا رہنے والا ایک درویش صفت انسان تھا۔وہ صرف اپنے کولیگز کو ہی نہیں بلکہ شہر کے علمی و ادبی حلقوں کو بھی سوگوار چھوڑ گیا۔ میرے نزدیک کسی کی یاد میں تعزیتی کالم لکھنا سب سے مشکل کام ہے کہ مرنے والے کے ساتھ پل پل مرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کی یادوں اور باتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اس کی شخصیت کو آپ کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔
سید قسور رضی ایک نظریاتی شخص تھا۔ بہت سوں کی طرح اس نے نظریہ ضرورت کو اختیار نہیں کیا۔ مزدوروں کے حق میں آواز اٹھاتا رہا۔ پیپلز لیبر بیورو کے عہدیدار کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتا رہا۔ رضا نقوی‘ وقار صدیقی‘ رب نواز لاشاری‘ اقبال محمود قاضی اور قسور کے سبھی ساتھی سنگتی اس دائمی جدائی پر سوگوار نظر آئے۔ منتظر مہدی جلیل بلوچ‘ افتخار جعفری‘ اشرف رضا‘ غضنفر رضا‘ علی نقی اور حسن بھی اپنے دیرینہ ساتھی کی موت پر اشک بار تھے۔ قسور راضی ذہین اور روشن خیال شخص تھا۔ فن پہلوانی بھی اس کے پسندیدہ موضوعات میں شامل تھا۔ اس کے علاوہ وہ عمدہ شعری ذوق رکھنے والا ادب اور کتاب دوست انسان تھا۔ آرٹس کونسل میں سخنور کی ادبی بیٹھک اور شہر کی دیگر علمی و ادبی مجالس میں باقاعدگی سے شرکت کرتا تھا۔ رضی الدین رضی اور قسور رضی ، رضی نام مشترک ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے خاص اُنسیت رکھتے تھے۔ ایک حساس شخص ہونے کی وجہ سے قسور غم دوراں اور غم جاناں کا بھی اسیر تھا۔ پہلے اس کا بھائی شکیل شاہ طالبعلم سیاست کی بھینٹ چڑھا۔وہ بھائی کے غم سے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو نکال پایا کہ اپنے جواں سال بیٹے مشہد کی موت نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی اور وہ ایک بار پھر گوشۂ نشینی میں چلا گیا۔
اپنے پیاروں کی موت خون کے آنسو رلاتی ہے کیونکہ جب قسور اور ان کی شریک حیات مشہد کے ماتھے پر سہرا سجانے کے خواب دیکھ رہے تھے اس وقت مشیت ایزدی نے ان کے دل کا سرور اور آنکھوں کا نور چھین لیا۔ قسور کی تو جیسے دنیا ہی اندھیر ہو گئی۔ اس کا دل زندگی سے اُچاٹ ہو گیا وہ اکثر و بیشتر قبرستان میں اپنے لخت جگر کی قبر کو اپنے آنسوؤں سے تر کرتا۔ وہ زندگی کے ہنگاموں سے دور قبرستان کی ویرانی اور خاموشی میں سکون ڈھونڈنے لگا مگر…
؎ سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
اور یہی وہ وقت تھا جب سید قسور رضی زندگی سے دور ہوتا گیا۔ زمانے کے سرد رویوں‘لاتعلقی اور بے حسی نے اسے موت کی وادی کی طرف دھکیلنا شروع کردیا۔ درست کہتے ہیں کہ دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے لیکن نہ تو قسور کے دوست اسے اس مصیبت سے دور لا سکے اور نہ ہی اس کے عزیز و اقارب اس کی پریشانی کا کوئی حل تلاش کر سکے۔ یہ بھی ہمارا ایک معاشرتی المیہ ہے کہ ہم مرنے والے کی موت پر پُرسہ دیتے ہیں۔ اس کی یاد میں شمعیں جلاتے ہیں،تعزیتی ریفرنس کرتے ہیں مگر اس کی زندگی میں اسے بھول جاتے ہیں۔ مصیبت کے وقت اسے سننا چھوڑ دیتے ہیں اور یہ تنہائی پھر انسان کو ڈس لیتی ہے۔ شہر کی محفلوں کو گرمانے والا قسور رضی حوادثِ زمانہ کا شکار ہو کر رہ گیا۔ کاش ہم اپنے ایسے دوستوں کو تنہائی کا شکار نہ ہونے دیں۔ مجھے یہاں منیر نیازی کی نظم کے یہ اشعار بہت یاد آ رہے ہیں کہ
؎ کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
اور ہم ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں بعد میں صرف پچھتاوے ، جانے والے کی دائمی جدائی کا دکھ ،اس کی باتیں اور یادیں رہ جاتی ہیں۔ چند سال پہلے جب میں نے رنگو ملنگ کی وفات پر کالم لکھا تو اور بہت سے دوستوں کی طرح قسور رضی نے بھی اسے بہت پسند کیا اور مجھ سے فرمائش کی کہ میں ان کے لئے بھی ایک ایسا ہی کالم ضرور لکھوں گا۔
اس کی وفات کے بعد میں یہ کالم لکھ کر اس کی فرمائش کو پوری کررہا ہوں لیکن بوجھل دل کے ساتھ کہ زندگی کے رویوں سے بھرپور زندگی گزارنے والا ہنستا مسکراتا قسور رضی میرے ذہن کے پردے میں محفوظ ہے۔ قسور رضی کے بھائی گوہر اور بیٹے رزیم کیلئے اس دکھ کو جھلینا یقیناً مشکل ہے لیکن موت برحق ہے اور ہر آنے والے کو اس دارِ فانی سے جانا ہے۔ قسور رضی کے دوستوں پر بھی اس کی یادوں کو تازہ رکھنے اور اس کے اہلخانہ کے دکھ درد میں شامل ہونا ایک قرض ہے۔ ہمیں اپنی محبتوں کے قرض اُتارتے رہنا چاہئے اور کسی کو اس کی زندگی میں ہی تسلیم کرتے ہوئے اسے موت کی وادی میں جانے سے پہلے زندگی کی رعنائیوں کی طرف لوٹانے کیلئے اپنی کاوشوں میں دیر نہیں کرنی چاہئے ورنہ جانے والے بہت دور چلے جاتے ہیں اور بس پھر بھرم ہی باقی رہ جاتا ہے۔
جانے والے کو نہ روکوکہ بھرم رہ جائے
تم پکارو بھی تو کب اس کو ٹھہرنا ہے