چکوال کا ضمنی انتخاب ،حقائق اور مستقبل
پی پی 20چکوال کا ضمنی انتخاب9جنوری کو پر امن طور پر مکمل ہوا۔تحریک لبیک کے ناصر عباس منہاس نے 16577،تحریک انصاف کے راجہ طارق افضل کالس نے 46025 جبکہ نون لیگ کے چوہدری سلطان حیدر علی نے 75958ووٹ لے کر اپنے قریبی حریف تحریک انصاف کے طارق کالس پر 29933ووٹوں کی برتری حاصل کر کے ملک بھر میں موجود نون لیگ کے سیاسی اور صحافتی حمایتیوں کے اترانے اور بغلیں بجانے کا سامان کر دیاجبکہ مخالفین کو بغلیں جھانکنے پر مجبور۔سیاسیوں کی تو مجبوری ٹھہری کہ وہ پارٹی عصبیت کے دائرے سے باہر نکلنے کی قدرت نہیں رکھتے صحافی اور تجزیہ کار و نگار مگر کیونکر؟ڈرائنگ روم کے معتدل موسم میں تجزیہ نگاری کی جائے یا سیاست،وہ حقائق سے کوسوں دور ہوتی ہیں ڈرائنگ روم اور سٹوڈیو روم میں بیٹھے تجزیہ کاروں کی بات اس حد تک درست ہے کہ نون لیگ کا امیدوار بھاری اکثریت سے جیت گیا مگر اس کے اسباب جو بیان کیے جاتے ہیں وہ مبنی بر حقیقت نہیں۔یہ کہنا کہ لوگوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا یا لوگوں کو اقامہ،پانامہ،ماڈل ٹائون کی 14ہلاکتوں اور ختم نبوت قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا نواز شریف کی نا اہلی سے کوئی دلچسپی نہیں،یہ درست نہیں۔وہ مذہبی جماعتیں جن کی عمریں پاکستان سے زیادہ ہیں۔ان کے اتحاد’’متحدہ مجلس عمل(MMA)‘‘کے امیدوار قاضی عبدالقیوم ایڈووکیٹ نے PP20سے 2002ء کے انتخابات میں 6000ووٹ لیے تھے جبکہ ایک نوزائیدہ جماعت تحریک لبیک کے امیدوار ناصر عباس ایڈووکیٹ نے بغیر کمپین چلائے 16577ووٹ حاصل کر لیے۔کیا یہ ناموس رسالت قانون میں ردو بدل کرنے کی کوشش کرنے والی مسلم لیگ ن سے نفرت اور رد عمل کا ووٹ نہیں؟2013میں جماعت اسلامی کے امیدوار نے اس حلقے سے محض700ووٹ لیے۔تحریک انصاف نے بھی 2013کے مقابلے میں اس دفعہ اس حلقے سے 13000زائد ووٹ لیے اور نون لیگ نے 14000،حالانکہ ٹرن اوور 2013ء کی نسبت12%کم رہا۔یہ 13000ووٹ حاصل کرنے میں پی ٹی آئی کی محنت کم اور مسلم لیگ نون کی زیادہ ہے۔مندرجہ بالا چار عناصر نے مل کر یہ 13000ووٹ بنائے ہیں۔ن لیگ کے گڑھ،نواز شریف کے قومی اسمبلی کے حلقے NA120لاہور سے نواز شریف کی بیگم کلثوم نواز نے محض تین ماہ قبل 70000ووٹ لیے جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقے PP20چکوال سے ایک نووار دامیدوار سلطان حیدر نے 76000ووٹ لے لیے جو ایک ریکارڈ ہے جبکہ صوبائی حلقہ قومی اسمبلی کے حلقے سے ووٹوں کے لحاظ سے آدھا ہوتا ہے مگر ووٹ 6000زیادہ لے لیے۔پھر اس کارکرردگی کی وجہ کیا ہے؟اس ’وجہ‘کا نام سردار غلام عباس خان ہے۔PP20,NA60اور PP21پر مشتمل حلقہ ہے جس میں سے 2013ء کے انتخابات میں سردار غلام عباس نے آزاد امیدوار کے طور پر 108000ووٹ لیے اور 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں ضلع چکوال سے 23یونین کونسلیں خود جیتیں اور 9ق لیگ کو جتوائیں۔سردار غلام عباس ن لیگ کی بجائے تحریک انصاف کو صرف15000ووٹ اگر دلوا دیتے تو مسلم لیگ ن کے ووٹ 75958سے کم ہو کر 60958اور تحریک انصاف کے 46025سے بڑھ کر 61025ہو جاتے اور تحریک انصاف جیت جاتی جبکہ سردار غلام عباس نے اس سے کہیں زیادہ ووٹ نون لیگ کے امدوار کو دلوائے۔
NA120کے ضمنی انتخاب میں نون لیگ کی طرف سے ایک الزام تو اتر کے ساتھ لگایا جاتا رہا کہ نا معلوم افراد اور نظر نہ آنے والی قوتیں نون لیگ کے ووٹروں،کونسلروں اور یونین کونسل چیئرمینوں کو ڈراتی،دھمکاتی،حراساں کرتی اور اغواء کرتی رہیں تا کہ وہ نون لیگی امیدوار کے حق میں ووٹ نہ ڈال سکیں۔PP20کے ضمنی انتخاب میں ہم نے ایسا کوئی واقع دیکھا نہ سنا۔
2018ء کے عام انتخابات میں اگر نون لیگ NA60کا ٹکٹ سردار غلام عباس کو دیتی ہے تو میجر طاہر اقبال کدھر جائیں گے؟
وہ تو خوشبو ہے ہوائوں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
اگر2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں PTIوفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر آئی تو ’’پھول‘‘پی ٹی آئی میں جائے گا اور کوشش کرے گا کہ NA60کا ٹکٹ مل جائے اگر ایسا ہو گیا تو PP20کا ٹکٹ علی ناصر بھٹی کو مل جائیگا اور اگر NA60کے اکھاڑے میں سردار غلام عباس کے مقابل پی ٹی آئی ایاز امیر کو اُتارتی ہے تو میجر طاہر اقبال2008کی مانند سردار غلام عباس پر ’’خود کش‘‘حملہ کرنے کی بجائے اپنے بھائی نعیم اصغر کو PP20کا ٹکٹ دلوا کر اپنی سیاسی بقا کے پانی پت میں آخری جنگ لڑیں گے۔
پانی پت کے میدان میں پہلی شکست ابراہیم لودھی نے ظہیر الدین بابر سے جبکہ آخری مرہٹوں نے احمد شاہ ابدالی سے کھائی۔چکوال کی سیاست کے پانی پت میں پہلی شکست جنرل عبدالمجید نے 2005کے ضلع ناظم کے انتخاب میں سردار عباس سے کھائی۔جبکہ آخری معرکے میں ’’کھادا پیتالا ہے دا۔باقی احمد شا ہے دا‘‘تاریخ کا سبق ہے کہ جس سردار عباس کو جنرل مجید نے 1988ء میں غیر حقیقت پسندانہ اور غیر منصفانہ حلقہ بندیوں کے ذریعے راستے سے ہٹا کر اپنا سیاسی سفر محفوظ بنایا تھا آج وہی سردار عباس ان کے وارثان باز گشت کے اعصاب پر ڈرائونا خواب بن کر سوار ہے۔