جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی سمیت 14 کو سزائے موت
چٹاگانگ + لاہور (نیوز ایجنسیاں + خصوصی نامہ نگار) بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے جماعت اسلامی کے امیر 70 سالہ رہنما مطیع الرحمن نظامی سمیت 14 افراد کو سزائے موت سنا دی۔ جماعت اسلامی کے 70 سالہ رہنما مطیع الرحمان نظامی کو 10 سال پرانے مقدمہ میں سزا سنائی گئی ہے۔ ان افراد کو بھارت میں باغی گروپ کو اسلحہ سمگل کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔ ان افراد پر 2004 میں آسام علیحدگی پسندوں کے لئے اسلحہ کی سمگلنگ کا الزام ہے۔ پراسیکیوٹر کمال الدین احمد نے چٹاگانگ مےں مےڈےا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جج نے اسلحہ سمگلنگ کے الزام میں مطیع الرحمان نظامی سمیت 14 افراد کو سزائے موت سنا دی ہے۔کمال الدین نے کہا کہ ہم اس فیصلے پر مطمئن ہیں، یہ ایک ایسا مقدمہ تھا جس کی مثال نہیں ملتی۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ خالدہ ضیاءکے دور میں وزیر صنعت کے عہدے پر فائز رہنے والے مطیع الرحمن نظامی نے اپریل 2004 میں چار ہزار 930 آتشیں اسلحہ، 27 ہزار سے زائد دستی بم، 840 راکٹ لانچر سمیت دیگر اسلحہ سمگل کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہیں 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان سمیت 50 افراد پر اسلحہ سمگلنگ سمیت دیگر سنگین الزامات تھے۔ اس اسلحے کو سرحد پر بھارتی باغیوں کو فراہم کرنا تھا۔ جمعرات کو سزائے موت پانے والے 14 افراد میں سابق وزیر داخلہ لطف الزمان بابر اور ملکی انٹیلی جنس کے دو سابق سربراہان بھی شامل ہیں۔ علیحدگی پسند تنظیم یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام کے رہنما پاریش باروہا کو بھی غیرموجودگی میں موت کی سزا سنائی گئی، جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اسلحہ سمگلنگ کا مقصد سرحد پار علیحدگی پسند تنظیم کی مدد کرنا تھا۔ 10برسوں بعد سنائے گئے اس فیصلے کے بعد چٹاگانگ میں سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے اور جماعت اسلامی کی جانب سے احتجاج کے خدشے کے پیش نظر اہم علاقوں میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی۔ نظامی سابق وزیر اعظم اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا کے دور میں وزیر کے عہدے پر فائز رہے جہاں بی این پی نے مذہبی جماعت سے اتحاد کر کے حکومت بنائی تھی۔ مطیع الرحمن نظامی بنگلہ دیش بننے سے پہلے اسلامی جمعیت طلبا پاکستان کے ناظم اعلی بھی رہے۔ مطیع الرحمن نظامی کا کہنا ہے وہ سزا کے خلاف اپیل کریں گے انہیں 1973 میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے الزام کا مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن، امیر جماعة الدعوة پروفیسر حافظ سعید نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر سمیت 14 افراد کو سزائے موت سنائے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔ منورحسن نے شدید مذمت کرتے ہوئے اسے سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔ اور پاکستانی حکومت اور مسلم حکمرانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ظلم کو رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور حسینہ واجد پر دباﺅ ڈالیں کہ وہ انتقامی کارروائیوں سے باز آئے۔ منور حسن نے کہاکہ اس جھوٹے مقدمے نے بھارت کی سازش کو بے نقاب کر دیا ہے کہ بنگلہ دیش میں تمام انتقامی کارروائیوں کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔ کوئی بھی ذی شعور انسان مولانا مطیع الرحمن نظامی جیسی شخصیت پر اسلحہ سمگلنگ کا الزام نہیں لگا سکتا۔ علاوہ ازیں پروفیسر حافظ سعیدنے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان اس مسئلہ کو فی الفور سلامتی کونسل میں اٹھائے اور اجلاس بلا کر پھانسیوں کی ان سزاﺅں پر عمل درآمد روکنے کی عملی کوششیں کی جائیں۔ جماعت اسلامی کے رہنماﺅںکو صرف اسلام اور پاکستان سے محبت کے جرم میں پھانسیوں کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے۔ حکومت پاکستان کو اس مسئلہ پر کسی صورت خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ بھارت بنگلہ دیش پر دباﺅ ڈال کرجماعت اسلامی رہنماﺅںکو پھانسیوں کی سزائیں دلوا رہا ہے۔ لیکن ہم صاف طور پر کہتے ہیں کہ پھانسیاں اور قیدو بند کی صعوبتیں حق کی آواز کو نہیں دبا سکتیں۔ ان مذموم حرکتوں سے بنگلہ دیش میںایک بار پھر نظریہ پاکستان زندہ ہو گیا ہے۔
سزائے موت