31 جولائی کے فیصلے میں مداخلت کی ضرورت نہیں‘ سپریم کورٹ نے مشرف کی نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی‘ علاج کیلئے امریکہ جانے کی اجازت دی جائے‘ سابق صدر کی خصوصی عدالت سے استدعا
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت/ نیٹ نیوز/ بی بی سی + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے 31 جولائی 2009ءکے فیصلے پر نظرثانی اپیل کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ عدالت نے سپریم کورٹ کے 31 جولائی 2009ءکے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست کے بارے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ درخواست میرٹ پر نہیں آتی یہ زائد المیعاد بھی ہے۔ درخواست گزار یہ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے 31 جولائی کے فیصلے میں ا±س وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا رویّہ تعصب پر مبنی تھا۔ دوران سماعت پرویز مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ ا±ن کے موکل 3 نومبر 2007ءکے اقدام پر معافی نہیں مانگیں گے اور سپریم کورٹ اسی طرح اس اقدام کی توثیق کرے جس طرح ماضی میں عدالتیں فوجی آمر کے اقدامات کی توثیق کرتی تھیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔ بینچ میں موجود جسٹس ثاقب نثار نے پرویز مشرف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا وہ نصرت بھٹو اور ظفر علی شاہ کیس کا حوالہ دینا چاہتے ہیں تاکہ اب بھی کوئی ماورائے اقدام کرلے جس پر شریف الدین پیرزادہ کا کہنا تھا کہ وہ غیر آئینی اقدام کی بات نہیں کر رہے۔ 31 جولائی 2009ءکے عدالتی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے ا±نہوں نے کہا کہ ا±ن کے موکل اور ا±س وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے درمیان اختلافات ا±س وقت شروع ہوگئے تھے جب پرویز مشرف نے ا±نہیں آرمی ہا¶س میں طلب کیا تھا۔ جس پر جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ’اس خبر سے تو ا±س وقت کے آرمی چیف کی جانبداری معلوم ہوتی ہے چیف جسٹس کی نہیں۔‘ ا±نہوں نے شریف الدین پیرزادہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی نظرثانی کی درخواست میں وہ پیرا دکھائیں جس میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے متعصب ہونے کا ذکر ہو تاہم پرویز مشرف کے وکیل ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ جب سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے پرویز مشرف کو خط لکھا تھا ا±س سال ملک میں ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 2013ءمیں 6 ہزار افراد مارے گئے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب بھی ملک میں ایمرجنسی لگا دی جائے۔ شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ سابق بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی نے بھی ملک میں ایمرجنسی لگائی تھی جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اس کے ساتھ آپ یہ بھی کہہ دیں کہ وہ بھارت کا سیاہ ترین دور تھا۔ عدالت نے تمام دلائل مسترد کرتے ہوئے نظرثانی کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ سپریم کورٹ نے31 جولائی 2009ءکے فیصلے کےخلاف سابق صدر پرویز مشرف کی نظرثانی کی درخواست خارج کرتے ہوئے انہیں نمٹا دیا۔ عدالت نے کہا کہ یہ درخواست زائد المیعاد ہے، مقررہ وقت پر دائر کی گئی اور نہ ہی یہ میرٹ پر پورا اترتی ہے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سر براہی میں سپریم کورٹ کے 14 رکنی لارجر بنچ نے سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے 31 جولائی 2009ءکے فیصلے پر نظرثانی درخواست کی سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو سابق صدر کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے 31 جولائی کا فیصلہ دینے والے ججز پر جانبداری کے الزام سے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ پرویز مشرف اور افتخار چودھری کے تنازعہ کا ثبوت آرمی ہاو¿س میں ہونے والی ملاقات بھی ہے، سابق چیف جسٹس کو آرمی ہاو¿س طلب کیا گیا تھا۔ انہوں نے عدالت میں اخبارات کے تراشے بھی پیش کئے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ اخبارکی خبروں کو بیچ میں نہ لائیں، اس ملاقات سے تو ثابت ہوتا ہے کہ آرمی چیف جانبدار تھے، 34 صفحات کی پٹیشن میں وہ پیرا دکھا دیں جس میں چیف جسٹس کے جانبدار ہونے کا الزام ہو۔ شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ قائد اعظمؒ نے وفاقی آئینی عدالت بنانے کی تجویز دی تھی اور میثاق جمہوریت میں بھی وفاقی آئینی عدالت کی بات کی گئی ہے جس پر جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیاکہ کیا آپ الگ آئینی عدالت کی تجویز دے رہے ہیں، تو شریف الدین پیرزادہ نے ہاں میں جواب دیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے پوچھا کہ اس تجویز کا نظر ثانی کیس سے کیا تعلق ہے؟۔ شریف الدین پیر زادہ نے کہا کہ اس کا نظر ثانی کیس سے کوئی تعلق نہیں، شریف الدین پیر زادہ نے کہا کہ تاریخ میں آئین سے ہٹ کر کئی دفعہ کام کئے گئے، عدلیہ نے اجازت بھی دی۔ شریف الدین پیر زادہ کی جانب سے دلائل مکمل کئے جانے کے بعد ابراہیم ستی نے ایک بار پھر دلائل شروع کئے جس میں انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف پنجرے میں بند ہیں ہم تو پرویزمشرف کا ٹرائل ہی نہیں چاہتے، لارجر بنچ میرے موکل کےلئے کچھ کرے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ وہ ہسپتال میں ہیں؟ ابراہیم ستی نے کہا کہ خدا کےلئے ایسا فیصلہ دیں جس سے آئین کے آرٹیکل 10 کے تقاضے پورے ہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جس طرح پہلے ماورائے آئین اقدامات کو تسلیم کیا گیا، اب بھی کر لیں۔ جسٹس ثاقب نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس کیس میں ظفر علی شاہ اور نصرت بھٹو کیس کا حوالہ دینا چاہتے ہیں تا کہ اب بھی کوئی ماورائے آئین اقدام کر لیں۔ شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ وہ ماورائے آئین اقدام کی اجازت نہیں مانگ رہے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ جب وزیراعظم شوکت عزیز نے ملکی صورتحال پر صدر کو خط لکھا تو سال میں ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے اب یہ حالات ہیں کہ 2013ءمیں چھ ہزار افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایمرجنسی اب لگنی چاہئے۔ جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف اب معافی چاہتے ہیں۔ عدالتی استفسار پر شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ دیگر ممالک میں بھی آرٹیکل چھ کا اطلاق ہوتا ہے۔ 1973 میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے تمام عدلیہ سے مشاورت کے بعد ایمرجنسی لگائی تاہم ایک جج نے مخالفت کی جسے نظرانداز کیا گیا۔ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے دوران چار ہزار افراد کو گرفتار کروایا۔ اندرا گاندھی نے ایک روز کیلئے اپنی بھی گرفتاری دی۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ پھرآپ یہ بھی کہہ دیں کہ یہ بھارتی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا۔ شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ کو کئی بار تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد آئین میں کئی تبدیلیاں کی گئیں۔ پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے کہاکہ آرٹیکل 10 اے آ چکا ہے، عدالت سے انصاف چاہیے درخواست اس وجہ سے واپس نہیں لی کہ ایسا لگتا استغاثہ نے درخواست واپس لے لی۔ انہوں نے کہاکہ چاہتے ہیں ہماری درخواست منظور کی جائے اور نظرثانی درخواست کا فیصلہ ضرور کیا جائے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یا تو ہم آپ کی درخواست منظور کر سکتے ہیں یا مسترد کرسکتے ہیں۔ ابراہیم ستی اور شریف الدین پیرزادہ کے دلائل مکمل ہونے پر سماعت ایک گھنٹے تک ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ وقفے کے دوران جائزہ لیں گے۔ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل رشید رضوی کے دلائل سننے ہیں یا نہیں، یہ بھی مشاورت کریں گے کہ کیا فریقین کو نوٹس جاری کرنے ہیں یا نہیں۔ وقفے کے بعد عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ نظرثانی کی درخواستیں زائد المیعاد ہیں، مقررہ وقت پر دائر نہیں کی گئیں۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ پرویز مشرف نے 31 جولائی 2009 کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست مقررہ مدت میں دائر نہیں کی اس کے علاوہ جو دلائل دیئے گئے وہ بھی اس سے مطابقت نہیں رکھتے اس لئے درخواست کی سماعت نہیں کی جاسکتی۔ عدالت نے کہاکہ درخواست گذار یہ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے 31 جولائی کے فیصلے میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا رویہ تعصب پر مبنی تھا۔ عدالت 31 جولائی کے فیصلے میں مداخلت کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔
لام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز+ ثناءنیوز) سابق صدر پرویز مشرف نے علاج کے لئے امریکہ جانے کےلئے خصوصی عدالت سے باضابطہ طور پر اجازت طلب کر لی ہے، خصوصی عدالت مےں سابق صدر پروےز مشرف غداری کےس کی سماعت کے دوران بیرسٹر سیف نے پرویز مشرف کی جانب سے علاج کی غرض سے امریکہ جانے کے لئے عدالت میں باضابطہ درخواست دی۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا حکم جاری کرے۔ سابق صدر علاج کےلئے باہر جانا چاہتے ہیں ای سی ایل میں نام ہونے کی وجہ سے علاج کےلئے باہر نہیں جاسکتے۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر پرویز مشرف کے وکیل رانا اعجاز ایڈووکیٹ نے درخواست کی کہ وکلا کی پوری ٹیم سپریم کورٹ میں مصروف ہے اس لئے کیس پر کارروائی پیر تک ملتوی کی جائے، عدالت نے کارروائی ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ وکلا صفائی کی غیر موجودگی میں وکیل استغاثہ کی جانب سے میڈیکل رپورٹ پر اعتراضات سن لیتے ہیں۔ پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ مشرف پندرہ منٹ کی مسافت پر موجود عدالت نہیں آ سکتے مگر اٹھارہ گھنٹے کا سفر کرکے کیسے امریکہ جانے کو تیار ہیں وہ وہاں کیسے جا سکتے ہیں۔ اکرم شیخ نے اے ایف آئی سی کی میڈیکل رپورٹ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل رپورٹ غیر پیشہ وارانہ ہے، میڈیکل رپورٹ بیان حلفی اور تائیدی دستاویزات کے ساتھ پیش ہونی چاہئے تھی لیکن رپورٹ کے ساتھ متعلقہ ٹیسٹ کا کوئی ریکارڈ منسلک نہیں اس میں عدالتی سوالات کے جوابات بھی نہیں دیئے گئے، اس صورت حال میں اس کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق پرویز مشرف کا کوئی نیا ٹیسٹ بھی نہیں لیا گیا حالانکہ مریض کی حالت سنگین ہو تو48 سے72 گھنٹوں میں ای سی جی اور انجیو گرافی ہوتی ہے لیکن 28 روز بعد بھی ملزم کی ای سی جی نہیں کی گئی، دل کے مریض کو علاج کے بغیر3 دن سے زیادہ ہسپتال میں نہیں رکھا جا سکتا، پرویز مشرف کو دل کا دورہ نہیں پڑا وہ ہسپتال میں لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور پورا وارڈ بلاک ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ اے ایف آئی سی کی رپورٹ کی تائید کےلئے انجیو گرافی اور انزائم رپورٹ ضروری ہے، عدالت میڈیکل رپورٹ پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہے اس کے علاوہ عدالت کسی کارڈیالوجسٹ کو بلا کر رپورٹ کا تجزیہ بھی کرا سکتی ہے، اے ایف آئی سی کے سربراہ کو بلا کر پوچھا جائے کہ ہسپتال میں کتنی انجیو گرافی ہوئیں اور اس دوران کتنے لوگوں کی اموات ہوئیں۔ اکرم شیخ نے پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ غیر پیشہ ورانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں دی گئی ڈاکٹروں کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ کیا اے ایف آئی سی انٹرنیشنل آرگنائزیشن سے سند یافتہ ہے جس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ یہ بالکل عالمی معیار پر پورا اترتا ہے اور آئی ایس او سے سند یافتہ ہے۔ اٹھائیس دن گزرنے کے باوجود ملزم کی ای سی جی نہیں کی گئی۔ عدالت نے کیس کی سماعت آج تک کےلئے ملتوی کر دی۔ نظرثانی کی درخواست مسترد ہونے کے بعد پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر محمد علی سیف نے سپریم کورٹ کی طرف سے مشرف کی نظرثانی کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلہ پر کہا ہے کہ عدالت نے ایک غلط فیصلے کو ٹھیک کرنے کا موقع گنوا دیا‘ جن ججوں نے 31 جولائی کا شرمناک فیصلہ دیا انہیں اپنے فیصلے پر شرم آنی چاہئے‘ ہم عدالتوں میں اب بھی پیش ہورہے ہیں آئندہ بھی پیش ہو کر اپنے موکل کا دفاع کرتے رہیں گے‘ کیس کا جھوٹا سچا ہونا الگ بات ہے‘ پراسیکیوٹر کی جانب سے میڈیکل رپورٹ کے اعتراضات پر دلائل فلمی مکالموں کی طرح ہیں‘ میڈیکل رپورٹ کو اس بنیاد پر غلط قرار دیا کہ اس میں ٹیسٹ رپورٹس شامل نہیں کی گئیں سمجھ سے بالاتر ہے‘ اے ایف آئی سی کے سربراہ کو عدالت میں طلبی پر ضد کرنا پراسیکیوٹر اور ان کے آقا کے تعصب کی نشاندہی کرتی ہے۔ اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے انٹرنیٹ سے چند کاغذات کا مطالعہ کیا لیکن انہیں خود اس کی سمجھ نہیں آئی تھی جبکہ وہ اسی بناءپر میڈیکل رپورٹ کے اعتراضات پر فلمی مکالموں کی طرح دلائل دے رہے تھے۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ اے ایف آئی سی کے سربراہ ڈاکٹر کو طلب کرنے کی ضد کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاک فوج اور عوام کے دشمنوں کو پیغام دیا جائے کہ ہم بہت طاقتور ہیں کسی کو بھی عدالت میں طلب کرسکتے ہیں۔
مشرف درخواست