حقیقت میں دیکھا جائے تو سیاست اس علم کو کہتے ہیں جسکی مدد سے ایک سسٹم کے اندر رہتے ہوئے جمہوری طریقے سے کسی بھی ملک کا نظم و نسق چلایا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں بدقسمتی سے سیاست اس چیز کا نام ہے جس کیلئے انگریزی میں یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔
The art of converting impossibilities into possibilities is called politics
اور درحقیقت پچھلے ستتر سالوں سے ہمارے ملک میں یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے جسکی تازہ مثالیں 2018ءمیں آر ٹی ایس کا بیٹھ جانا ہو یا 21-2020ءکا چیرمین سینٹ کا الیکشن یا پھر 2024ءکے الیکشن میں فارم 45 اور 47 کا قصہ ہو۔
یقین جانیئے یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کبھی دلِ ناا±مید سیاست کے اس جبر کی سفاکیوں سے اسقدر مایوس نہیں ہوا تھا جتنا وہ پچھلے کچھ ماہ سے کرم ایجنسیوں میں جاری خون آشام کھیل کی ہولناکیاں دیکھ کر خون کے آنسو رو رہا ہے کہ یہ کیسا آزاد ملک ہے جہاں چند کلومیڑ کے علاقہ میں وہاں کے سسٹم میں موجود سیاسی اشرافیہ کی حکومت جسکی بنیادی ذمہ داری ہی یہ ہے کہ وہ وہاں بسنے والے شہریوں کے، جنکا خواہ کسی بھی قبائلی گروہ یا مذہبی فرقے سے تعلق ہو، تحفظ اور انکی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ لیکن اسے بدبختی اور جلے نصیبوں کی انتہاءہی کہہ سکتے ہیں کہ اس سیاسی اشرافیہ کی آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے انہی کی قائم کردہ حکومتیں اسقدر انتظامی بانجھ پن کا شکار ہو چکی ہیں کہ دواو¿ں کی کمی اور دوسرے وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے آج وہاں کے عوام اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں اب اکسویں صدی کی ایک اور کربلا کا منظرنامہ ہر ذی ہوش اور ذی شعور کے سامنے شام غریباں برپا کئے کھڑا ہے۔
اسے بےحسی کا نام دوں یا سنگدلی کا، اسے حقوق کی جنگ کا نام دوں یا مکاری کی انتہاءکہ ایک طرف کرم ایجنسی میں ساٹھ سے اوپر معصوم انسانی جانیں سفاکیت کی نذر ہو جاتی ہیں تو دوسری طرف وہی اہل اقتدار جنکی یہ بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بتائیں کہ ایسا سانحہ کیوں رونما ہوا وہ بذات خود اسلام آباد کی سڑکوں پر اہل تماشہ کے سرخیل بنے عجب کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں۔ سیاست کے سسٹم کی ان ستم ظریفیوں سے دل اسقدر متنفر ہو رہا ہے کہ ہمزاد بھی اب طعنہ زنی پر ا±تر آیا ہے اور کہتا ہے کہ اور تعریفیں کرو اس جمہوری سسٹم کی جسکی حثیت اب بیوہ کی میلی چادر سے آگے کچھ نہیں۔ ہمزاد کی طعنہ زنی آج کی بات نہیں اسکا یہ سلسلہ پچھلے کئی ہفتوں سے جاری ہے تبھی اپنی خفت مٹاتے جسطرح قائد اعظم کے یوم پیدائش پر لکھے گئے پچھلے کالم میں ایک درویش ڈاکٹر آصف جاہ کا ذکر کیا اسی طرح آج کے کالم میں ایک اور قلندر کا ذکر کرنے چلا ہوں اور ہمزاد کو یہ یقین دلانے کے چکروں میں ہوں کہ سیاسی قیادتوں کے اس قحط الرجال میں آج بھی کئی ایسے روشن چراغ موجود ہیں جنکی موجودگی میں شائد اس ملک کا کاروبار چل رہا ہے۔
قارئین ! جس شخص کا ذکر کرنے چلا ہوں داتا گنج بخش علی ہجویری کے دربار پر جوتیاں سیدھی کرنے والے اس درویش کا نام ہے ڈاکٹر ظہیر الحسن میر جو غالبا اب اپنی زندگی کی پنسٹھیوں بہار کی رونقیں دیکھ رہا ہے۔ یہ غالباً 2012ءکی بات ہے میﺅ ہسپتال لاہور کے او پی ڈی کے ایک کمرے میں شربتی آنکھیں لئے سرخ و سفید گلابی رنگت کی چادر اوڑھے دمکتے چہرے کے ساتھ اپنی رعنائییوں کے عروج پر کشمیری نسل کا ایک خوبرو شخص پینٹ کوٹ میں ملبوس ٹائی لگائے بیٹھا ہے۔ ہسپتال میں تمام ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں اور مریض باہر کاریڈورز میں حسرت و یاس کی تصویر بنے کبھی ایک کمرے میں داخل ہو کر ڈاکٹروں کی جھڑکیاں سن رہے ہوتے ہیں اور کبھی دوسرے کمرے میں اپنی فریاد لیکر کھڑے ہوتے ہیں۔ موصوف بھی انہی ڈاکٹروں میں سے ایک ہوتے ہیں جو اس وقت اپنے روّیوں سے مسیحا کم اور جلاد زیادہ نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں انسان کی یہ فطرت ہے کہ بظاہراً وہ اپنے روّیوں کی وجہ سے کوئی ندامی محسوس کرے یا نہ کرے لیکن اسکا باطن اسے اس فرار پر ضرور آمادہ رکھتا ہے کہ وہ کوئی ایسے سہارے تلاش کرے جو اسکی زیادتیوں یا گناہوں کی اللہ کے گھر سے معافی میں وسیلہ بن سکیں۔
اپنے حسن اور جوانی پر نازاں جس ڈاکٹر کا ذکر کر رہا ہوں اسکے معاملات بھی کچھ اسطرح کے تھے کہ وہ بھی اکثر اوقات اپنے ذہنی سکون کے حصول کیلیئے دربار حضرت گنج بخش داتا علی ہجویری حاضری دیتا۔ اس دن بھی وہ ہسپتال سے ا±ٹھا اور سرکار داتا صاحب حاضری کیلیئے جاتا ہے۔ مزار شریف کے پائیں آنکھیں بند کیئے کھڑا ہے کہ کیا دیکھتا ہے کہ وہی مریض جو ہسپتال اسکے کمرے میں اپنی فریاد لئے گھوم رہے تھے وہ سفید چ±غوں میں ملبوس ہاتھوں میں پرچیاں پکڑے داتا صاحب کے ہاں اسکی شکایت لگا رہے ہوتے ہیں۔ صاحب تذکرہ آنکھیں کھولتا ہے اور پھر دوبارہ مراقبہ کی کیفیت میں جانے کی کوشش کرتا ہے تو وہی منظر دیکھ کر لرز جاتا ہے۔ بھاگم بھاگ ہسپتال واپس پہنچتا ہے اپنی جیب سے پرس نکالتا ہے جس میں مبلغ کوئی چھبیس سو روپے ہوتے ہیں۔ ا±نھیں نکالتا ہے اور اپنے دوسرے ساتھی ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ تمہاری جیب میں کوئی پیسے ہیں جس پر وہ دوسرا ڈاکٹر پوچھتا ہے کہ تم نے انکا کیا کرنا ہے۔ وہ جواب دیتا ہے کہ ہسپتال میں ہڑتال ہے کسی مریض کو کوئی دوائی نہیں مل رہی ہم ان پیسوں کی سامنے میڈیکل سٹور سے ادوایات خریدتے ہیں اور مریضوں کو دیتے ہیں۔ اسکا ساتھی ڈاکٹر کہتا ہے یہ میﺅ ہسپتال ہے جہاں ہزاروں مریض ہیں تمہاری ان چار پانچ ہزار کی دوائیوں سے انکا کیا بنے گا اور دوسری بات آج تو چلو کچھ کر لیتے ہیں کل کیا کرینگے۔ باقی کی کہانی اگلے کالم میں کہ مسبب الاسباب اپنے کام اپنے بندوں سے کیسے کرواتا ہے۔
کُرم میں جاری خون آشام کھیل
Dec 31, 2024