گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
گذشتہ روز شہید محترمہ کا یوم شہادت تھا۔ اس کے کتنے سال بیت گئے، ابھی تک ان کے قاتلوں کا پتہ نہیں چلا، ان میں سے چند ایک کو ہلاک کر دیا گیا۔میرا اشارہ بیت اللہ محسود کی طرف ہے۔ اصل میں جو اس قتل کے محرکات تھے ،جو اس کو پیچھے سے فنانس کرنے والے یا مینج کرنے والے خفیہ ہاتھ تھے، ان کے متعلق ابھی کلیئر نہیں ہو سکا۔ اس وقت پچھلے پندرہ سال سے سندھ میں خصوصاًپاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور مرکز میں بھی آصف علی زرداری صاحب دو دفعہ صدر بن چکے ہیں ،پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی دو وزیراعظم اس درمیان اپنا ٹینیور پورا کر چکے ہیں۔اور دو سری دفعہ آصف علی زرداری صدارت کے عہدے پرہیں۔سینیٹ کا چیئرمین ہمیشہ پچھلے دس پندرہ سال سے پیپلزپارٹی کا رہا ہے۔ فاروق نائیک، نیئر بخاری اور اب بھی یوسف رضا گیلانی چیئرمین ہیں اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو بھی ڈیرھ سال رہ چکے ہیں۔ اتنی بڑی بڑی آئینی پوسٹوں کی تقرریوں کے باوجود بھی اگر پیپلزپارٹی شہید محترمہ کے قاتلوں تک نہیں پہنچ سکی اور یا انہیں پہنچنے نہیں دیا گیا تو یہ بھٹو کے چاہنے والوں کے لیے لمحہ¿ فکریہ ہے۔
سکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی ٹیمیں بھی پاکستان میں بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کی تحقیقات کرنے آئیں لیکن ان کا مینڈیٹ محدود تھا اور عوام کے ساتھ ان کا رابطہ بھی نہیں ہوا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے اپنے ہی کچھ خفیہ ہاتھ ملوث ہیں۔کیونکہ یہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل جو ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کچھ اس سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ پنجاب میں اور سندھ میں ہر جگہ پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ کوئی پیپلزپارٹی کا ووٹ لے کر ایک کونسلر بھی منتخب نہیں ہو سکتا۔ ایم این اے اور ایم پی اے دور کی بات ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ لوگ پیپلزپارٹی کو، ذوالفقار علی بھٹوکو یا بے نظیر بھٹو کو چھوڑ گئے ہیں یا ان کی یاد ختم ہو گئی ہے بلکہ لوگ اپنی ہی پارٹی سے ناراض ہیں کہ وہ پندرہ پندرہ سال سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ لیکن جب یہ اقتدار میں نہیں ہوتے پھر ان کو عوام کی یاد آ جاتی ہے جب یہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو پھر وہ اور کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔انہیں تھوڑی سی توجہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس قتل اور سانحہ دسمبر بھی فوکس کرنی چاہیے۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
ایک ادارہ شہید محترمہ کے وارثین پر الزام لگا رہا ہے میں نہیں سمجھتا کہ ان کے وارثین اس طرح کا قدم اٹھا سکتے ہیں یا ایسا سوچ بھی سکتے ہیں کیونکہ اپنے گھر کے سب سے مقبول لیڈر کو منظر سے غائب کرنا تو خود اپنے مستقبل سے کھیلنا ہوتا ہے لیکن اس کے پیچھے آخر کوئی نہ کوئی تو وجہ ہے، یہ ان کو سامنے لانا پڑے گی۔ بہت سے کارکنان اور اوریجنل جیالے مایوس ہیں اور مایوسی کے باعث وہ اپنے گھروں میں ناراض ہو کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ لاہور سے پیپلزپارٹی کا ایک مشہور ایم این اے کا امیدوار حامد میر کا چھوٹا بھائی فیصل میر وہ سات سو ووٹ لے سکا ہے۔اگر آپ عوام کو بھول جائیں گے تو عوام پھر اپنا سارا غصہ اس طرح نکالتے ہیں۔ اس وقت بھی پیپلزپارٹی کی جو پنجاب سیٹیں ہیں وہی 45 اور 47 کا کھیل ہے۔اگر انہیں عوام کی حقیقی نمائندگی کرنی ہے۔حالانکہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے پاس کرشمہ بھی ہے جوان ہیں ، شہید محترمہ کے صاحبزادے ہیں ، شہید ذوالفقار کے وہ نواسے ہیں۔ پیپلزپارٹی اس کو پازیٹو طریقے سے بھی کیش کروا سکتی ہے۔یہ ان کو سوچنا ہوگا ،ان کو اپنی سیاست کا انداز اور رخ بدلنا ہوگا۔ اگر آپ بلاول صاحب کو وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں تو اچھی بات ہے لیکن ان کو عوام کی پشت پناہی اور سپورٹ بھی تو حاصل ہو۔ آپ عوامی سپورٹ کے بغیر بنا دیں گے تو وہ بھی روز کشکول اٹھا کر باہر مانگنے چلے جائیں گے، ان کا حال بھی شریفوں سے مختلف نہیں ہوگا۔ہر سال ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ اور برسی بڑے اہتمام کے ساتھ منائی جاتی ہے، اسی طرح بے نظیر بھٹو کی برسی اور سالگرہ کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔یہ اپنی اپنی جگہ پر دونوں بہت ضروری ہیں لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے بعد بے نظیر بھٹو کے مشن کی بات ہے، مشن کی باتیں بھی ہوتی ہیں لیکن ان کے افکار ان کے نظریات ان کے فلسفے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔بھٹو زندہ ہے بی بی زندہ ہے کہ نعرے ضرور لگتے ہیں ان کو صرف برسیوں اور سال گرہوں میں ہی زندہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کے نظریات کی ترویج کی ضرورت ہے۔
اس سال بھی 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی منائی گئی۔ سب سے بڑی تقریب گڑھی خدا بخش میں ہوئی باقی قابل ذکر کسی شہر میں تقریب بر پا کرنے میں پیپلز پارٹی ناکام رہی۔گو کے بڑے لیڈروں نے کہیں کہیں دس دس بارہ بارہ افراد کو اکٹھا کر کے دعا کر لی۔بڑی بڑی تقریبات ہر شہر میں ہونی چاہیے تھی جن میں عام کارکن جیالے بھی شرکت کرتے ہیں۔گڑھی خدا بخش میں ہونے والی برسی کی مرکزی تقریب سے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے خطاب کیا۔وہاں بے نظیر بھٹو سے زیادہ تذکرہ پاکستان کی سیاست کا ہوا میں سمجھتا ہوں کہ زیادہ بات بے نظیر بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کے نظریات کی ہونی چاہیے تھی۔بہرحال ہم اپنا کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے لیے میری پاکستان میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب ”صدیوں کا بیٹا“ اس پر میں دوبارہ سے کام کر رہا ہوں۔ بے نظیر بھٹو پر بھی ایک جامع کتاب ”بے نظیر بھٹو کے آخری 72 دن“ میری یادگار کتابوں میں سے ایک ہے۔اس کا ہر سال بے نظیر بھٹو کی برسی پر نیا ایڈیشن نکالنا پڑتا ہے۔”بے نظیر بھٹو کے آخری 72 دن“ یہ ایسی کتاب ہے کہ اس کے پہلے لفظ سے آخری لفظ تک پڑھنے والا افسردگی کی کیفیت سے نہیں نکل سکتا۔
شہید محترمہ کے قاتل آزاد کیوں؟
Dec 31, 2024