سال 2020 کا آج آخری دن ہے گزرے ان 365 دنوں میں بحیثیت من حیث القوم سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور اقتصادی طور پر کیا کھویا‘ کیا پایا وہ بنیادی سوال ہے جو ہم اپنے حکمرانوں اور اداروں سے پوچھنے کی خواہش تک رکھیں گے مگر نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی ایسے سوالات و درکنار وہ تمام عہد و پیماں تک بھلا دیں گے جن کا عہد کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اگر چاہا تو کل یکم جنوری 2021 کو پہلا سورج طلوع ہو گا تو سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی نئی خوشیاں اور نئے غموں کا آغاز ہو جائے گا اور پھر جوں جوں دن گزرتے جائیں گے انسانی سوچوں کا دائرہ کار خود بخود تبدیل ہوتا چلا جائے گا۔ اسے ہی نظام زندگی کہا گیا ہے۔
دن ہفتے سال اور صدیاں کیسے گزر جاتی ہیں انسان کو اس کا قطعی ادراک نہیں کہ ہر شے اسے کل کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ قیام پاکستان کل کی ہی تو بات ہے مگر اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اس آزاد اور خود مختار ریاست سے کل کے نام پرجو سلوک روا رکھا گیا وہ آج کی واضح تصویر ہے۔ ملک میں جمہوریت کب آئی اور کب ڈی ریل ہوئی سقوط ڈھاکہ کے پس پردہ استحکام پاکستان کے خلاف ملک دشمن عناصر اور غداران وطن… قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کے حقیقی خواب کی تعبیر اور اسلامی نظام کے نفاذ میں ناکامی کل کی ہی تو بات ہے؟؟؟ مگر افسوس صد افسوس! کہ ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ آج ہم اپنے ماضی سمیت سب کچھ بھول چکے ہیں۔
2020 سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی طور پر بدحالی کا سال رہا۔ ملک کو عالمی قرضوں اور گرے لسٹ سے نجات دلوانے کیلئے حکومت نے گو مربوط پالیسی اپنائی تاہم عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور کرپشن پاکستان کی ہرزہ سرائی کا باعث بنے۔ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ اقربا پروری اور محکموں کی کمزور کارکردگی حکومت کیلئے پریشانی کا باعث رہے تاہم مجموعی طور پر عوام کی خوشحالی‘ صحت‘ تعلیم اور ایک عام مزدور کی عزت نفس کے تحفظ کیلئے حکومتی اقدامات کی دنیا بھر میں تعریف کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان کی عہد شباب میں کرکٹ کے حوالے سے گزاری ان کی برطانوی طرز زندگی‘ 22 سالہ سیاسی جدوجہد اور عملی سیاست میں ملک و قوم کیلئے کئے گئے ان کے جمہوری فیصلوں سے عالمی سطح پر تو حکومت کو بلاشبہ پذیرائی حاصل ہوئی مگر ملک کے 73 سالہ بوسیدہ سیاسی نظام سے متصادم زیادہ تر فیصلوں سے عوام کو بعض قومی مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑا جس کا اپوزیشن نے جی بھر کے فائدہ اٹھایا۔ پی ٹی آئی حکومت میں چونکہ Collision Partners کا بھی اہم ترین رول ہے اس لئے بیشتر منصوبے اپوزیشن کے غیر سنجیدہ رویوں کی بدولت کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکے۔
حکومت کے عوامی منصوبوں میں صحت کارڈ‘ احساس پروگرام‘ نوجوانوں کیلئے تکنیکی تعلیم اور روزگار کے حوالہ سے قائم ادارے‘ وزیراعظم عمران خان کا امریکہ میں تاریخی خطاب‘ مظلوم کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں پر بھارتی جارحیت کے خلاف عالمی سطح پر بھرپور احتجاج‘ قومی Self Respect کی بحالی‘ ملکی سیاست میں تاریخی کامیابی‘ درخت لگانے کی مہم اور ڈیموں کی ممکنہ تعمیر پر حکومتی اقدامات کی عالمی سطح پر تعریف کی گئی۔ اوورسیز پاکستانیوں کو ڈیجیٹل اکائونٹ اور سٹیزن پورٹل کا قیام بھی حکومت کا ایک تاریخی اقدام ہے۔ اس طرح Covid-19 کی پہلی لہر پر بر وقت اقدام کرتے ہوئے ملک کو جہاں مکمل لاک ڈائون سے محفوظ رکھا وہاں اس موذی وائرس سے عوام کی بڑی تعداد کو ہلاک ہونے سے بھی بچا لیا گیا حکومت نے بلاشبہ زراعت‘ اور تعلیم کے شعبوں میں بھی بہترین پرفارمنس دی مگر سمندر پاکستانیوں کے مسائل اس سطح پر حل نہ کئے جا سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ اوورسیز پاکستانیوں کی زمینوں اور پلاٹوں پر غیر قانونی قبضے ائر پورٹس پر مسافروں سے تضحیک آمیز رویہ اور عدالتوں میں سالہا سال سے زیر سماعت مقدمات میں تاخیر ایسے بنیادی مسائل ہیں جو اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ہنوز تشویش کا باعث ہیں۔ تاہم برطانوی پاکستانی اس لئے بھی خوش ہیں کہ زلفی بخاری صاحب کو وزیراعظم عمران خان نے سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے امور کا معاون خصوصی مقرر کر رکھا ہے زلفی بخاری ماشاء اللہ نوجوان ہیں Londner ہونے کے ناطے ایک کامیاب کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ انیل مسرت صاحب‘ گورنر چودھری سرور اور جہانگیر صاحب کی طرح وہ ایک ہردلعزیز شخصیت ہیں۔ پاکستانیوںکے مسائل کے حل میںوہ گو گہری دلچسپی بھی رکھتے ہیں مگر میرا ان سے شکوہ یہ ہے کہ پاکستان کے مسائل کے حوالہ سے کی گئی کالز وہ نہیں لیتے۔ اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں وہ دفتری مصروفیات‘ اپنے سرکاری دوروں یا پھر اپنی سیاحتی ذمہ داریوں کی بنا پر فون اٹینڈ نہ کر سکتے ہوں مگر ریٹرن کال کی آپشن تو ان کے پاس ہر وقت موجود ہے۔ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ تمام تر قومی چیلنجز کے باوجود اوورسیز پاکستانیوں نے اپنے ملک میں اس سال 11 ارب 77 کروڑ ڈالر کی رقوم بھجوائی ہے جو ان کے محب وطن ہونے کا ایک بڑا ثبوت ہے۔
حکومت اڑھائی برس سے زائد کا عرصہ اور اپوزیشن کی جانب سے دیا ٹف ٹائم اب جب پورا کر چکی ہے تو اس پر لازم ہے کہ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ چینی‘ آٹے اور ٹماٹروں کے حصار سے باہر آ کر عوامی بہبود کے استحکام کیلئے اپنی کارکردگی کالیول مزید بہتر کرے۔ سینیٹ کے متوقع انتخابات میں درپیش سیاسی چیلنج کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک سے لوٹ مار کر کے بھاگے‘ بیمار اور صحت مند سیاستدانوں سے ملک کی لوٹی رقم واپس حاصل کر کے انہیں ہر حال میں واپس وطن لائے۔ کل یکم جنوری 2021ء کو سرزمین پاک پر سورج کی پہلی کرن جب پڑے گی تو نئے سال کی نئی حکمت عملی اور نئے قومی جذبہ سے سرشار اوورسیز پاکستانیوں کو عمران خان پھر شدت سے یاد آئیں گے کہ ان کی وزارت عظمیٰ کا ایک اور نیا سال شروع ہونے جا رہا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024