اسلامی طرزِ زندگی اور اسلامی جمہوری پاکستان
اسلامی جمہوریہ پاکستان،ایک ایسا ملک جسے بنانے کا مقصد اسلامی طور طریقے کے مطابق زندگی بسر کرنا تھا۔آج اِس وطنِ عزیز کو بنے 73سال ہو گئے۔کیا ہم اپنی اقدار کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے معاشرے کا نظام اسلامی ہے؟ کیا ہمارا انٹرٹینمنٹ میڈیا اسلامی رہن سہن کو معاشرے میں روشناس کروا رہا ہے؟ نہیں، ایسا کچھ نہیں ہو رہا جیسا سوچ کے ایک آزاد ریاست حاصل کی گئی تھی۔ہمارے حکمرانوں کی نظر اور قوت کرسی حاصل کرنے میں ہے اور عوام غربت اور مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔کسی کو یہ خیال ہی نہیں کہ ہم اخلاقی طور پر گہری کھائی میں گر رہے ہیں۔ہمارا رہن سہن، اخلاقی اقدار تو کہیں کھو چکے ہیں۔ہندئوں سے الگ تو ہو گئے ہم لیکن آج بھی ہمارے رسم و رواج میں انہی کی جھلک ہے۔ انگریزوں سے آزادی تو حاصل کر لی لیکن آج بھی ہم ان کے غلام ہیں۔آج اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کچھ بھی اسلامی نہیں ۔ کسی کو اِس کی پروا ہی نہیں۔ہر کوئی اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہا ہے۔ایک عجیب سی خود غرضی ہے۔اپنی روایات،رہن سہن اور اپنے طور طریقے کو بھلا کر کون سی ریاست نے ترقی کر لی ہے جو ہم ایسے ترقی کرنا چاہتے ہیں۔دنیا اور تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جو ممالک آج دنیا کی صفِ اول میں ہیں وہ اپنی روایات کو اپنا کر آگے بڑھے ہیں۔دوسروں کے رہن سہن کو اپنا کر ہم کوئی ترقی کی راہ پہ گامزن نہیں ہیں۔آج پاکستان میں انٹرٹینمنٹ چینل بہت زیادہ دیکھے جاتے ہیں اور نا صرف دیکھے جاتے ہیں بلکہ لوگ انہیں فالو بھی کرتے ہیں۔ہم اپنے معاشرے میں ان چینل کے ذریعے کیا سبق دے رہے ہیں ؟ رشتوں کی پامالی،اسلامی رہن سہن کا جنازہ نکال رہے ہیں بس۔۔سینیٹر علی محمد خان کے کہنے پر ڈرامہ سیریل جلن کو پیمرا کی طرف سے نوٹس کا اتنا فائدہ ہوا کہ اس ڈرامے کی ہر قسط یوٹیوب کی ٹرینڈ لسٹ میں پہلے نمبر پر ہوتی تھی۔اس ڈرامے نے رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ جذباتی قوم کو یہ پیغام بھی دیا کہ برابری کر کے سدھرنے کے علاوہ حرام موت کو ترجیع دیں۔اس ڈرامے کے علاوہ ہر دوسرے ڈرامے میں مقدس رشتوں کی پامالی کے ساتھ اسلامی طور طریقے کی دھجیاں اْڑائی جاتی ہیں۔اسلام میں دوپٹہ عورت کی عزت سمجھا جاتا ہے۔لیکن اب دکھایا جا رہا ہے کہ دوپٹہ عزت کی نہیں غربت کی علامت ہے۔اور رہی سہی کسر tiktok نے نکال دی۔۔ اگر بے لباس ہونا ہی ترقی ہے تو ایسی ترقی کا فائدہ جس میں ہم اپنی پہچان ہی بھول جائیں۔ایک انگریز ٹی وی پر وہی دکھاتا ہے جو وہ ہیں،ایک ہندو ٹی وی پر وہی نشر کرتا پے جو انکی پہچان ہے۔ہمارے چینل پر دکھایا جاتا ہے کہ ایک غریب گھرانے میں اسلامی طور طریقے ہیں۔امیروں کی پہچان ہی انگریزی لباس سے ہے۔ایک انگریز اپنے لباس سے پہچان لیا جاتا ہے۔کیا آج کے دور میں ایک مسلمان کو لباس سے پہچاننا ممکن ہے؟ صرف نام کے مسلمان ہونے میں فخر کیسا؟ جب کوئی پہچان ہی نا پائے کہ ہم مسلمان ہیں۔ایک شخص کو لباس سے پہچانا جاتا ہے کہ یہ کون ہے۔ہم تو اپنے اسلامی لباس میں ہی شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔اپنی روایات اپنے طور طریقے اپنانے اور دکھانے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ہم کہلوانا مسلمان چاہتے ہیں لیکن دِکھنا انگریز چاہتے ہیں۔یہ کیسی منافقت ہے؟ کیا ہم اپنی شناخت کو بھلا کر دنیا پر اپنی دھاک بٹھا سکیں گے؟ انجام کیا ہو گا ہمارا ، کبھی سوچا ہے؟ ایک ایسی قوم جس کی اپنی کوئی پہچان ہی نہیں وہ کیسے یہ امید رکھتی ہے کہ دنیا انہیں ایک مقام اور عزت دے گی۔ ہم ایسی قوم ہیں جو ٹھوکر کھا کر بھی نہیں سنبھلتے۔ہم نے خود کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوئی۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔