سینچورین ٹیسٹ کا دوسرا روز تھا۔ کھیل کے اختتام پر جب کھلاڑی ڈریسنگ روم میں واپس آئے تو سپورٹ سٹاف نے ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں اندر آئے تو ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے آگے بڑھکر کپتان سرفراز احمد اور سینئر کھلاڑیوں کو گلے لگایا سرخ گلاب کے ہار پہنائے، منہ میٹھا کروایا، دیگر کھلاڑیوں کو تھپکیاں دیں۔ یوں ماحول خوشگوار ہو گیا اور ہیڈ کوچ بولنے لگے شاباش میرے بچو پریشان نہیں ہونا، ہار جیت کھیل کا حصہ ہے، ہم کونسا پہلی مرتبہ ٹیسٹ میچ میں ناکام ہوئے ہیں اس سے پہلے بھی ہمیں مشکل حالات کا سامنا رہا ہے۔ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے کر رہے ہیں۔اب پچ میں اچھال ہو،آخری وقت میں گیند اپنا رخ بدل لے تو بلے باز کیا کر سکتیا ہے، دنیا کے تمام بیٹسمین ایسی صورتحال میں آوٹ ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں تم نے اپنی صلاحیتوں سے بڑھکر پرفارم کیا ہے۔ آوٹ ہونا، ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ کوئی بات نہیں اگر ٹیسٹ میچ جلدی ختم ہو گیا ہے بلکہ اچھا ہوا وقت سے پہلے ہی جان چھوٹ گئی، ہمیں دو اضافی دن مل گئے ہیں مستقبل کے چیلنجز کی تیاری کریں گے اور آپ سب جانتے ہیں آئندہ برس عالمی کپ بھی ہے۔ ہم نے اسکی بھی تیاری کرنی ہے۔ پھر یہاں سے فارغ ہونگے تو پاکستان سپر لیگ کے مقابلوں میں بھی شرکت کرنی ہے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہم کم بیک کریں گے اور ہاں گرانٹ فلاور بھی یہاں ہیں یہ سب انکی جان توڑ محنت کا نتیجہ ہے کہ ہماری بیٹنگ میں بہتری آ رہی ہے۔ دیکھیں امام نے رنز کیے،شان مسعود اچھا کھیلے،فخر زمان بھی ٹیسٹ کھیل گئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آنیوالے میچوں میں آپ بھرپور کم بیک کریں گے۔ میٹنگ ختم ہوئی سب ہوٹل واپس آ گئے۔ کھلاڑی معمول کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ کسی نے اپنے بھائی سے بات کی،کسی نے والدہ سے تو کوئی والد کے ساتھ بات کرتا رہا، کسی نے دوستوں کو فون کیے۔ ایک کھلاڑی نے صحافی دوست کا فون کیا اس نے ٹیم کے مسائل اور ٹیسٹ سیریز کے برے آغاز پر تبادلہ خیال کیا، مکی آرتھر کی میٹنگ بھی زیر بحث آئی۔ صحافی کے لیے پھولوں کی پتیاں، ہار اور مٹھائی والی بات ہضم نہ ہوئی۔فون منقطع ہونے کے بعد اس نے دماغ لڑایا، مکی کا ماضی کھنگالا، ٹیم کی کارکردگی کا پھر سے تجزیہ کیا اور بیٹھے بیٹھے سٹوری بنا لی کہ اصل میں میٹنگ کن حالات میں ہوئی۔ اس خیال کے مطابق صحافی نے خبر دے دی کہ مکی آرتھر اور ٹیم کے سینئر کھلاڑیوں میں سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ کوچ نے انتہائی سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے کرکٹرز کو ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا، غصے میں چیزیں اٹھا کر پھینکتے رہے، ٹیم اور کوچ میں تلخی بڑھ رہی ہے۔ اس خبر کے سامنے آنے پر میڈیا میں طوفان آ گیا تمام اخبارات ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر ہر کسی نے اپنے انداز میں خیالات کا اظہار کیا۔ مکی آرتھر کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، بلے بازوں کی خراب کارکردگی پر بھی ماہرین نے سخت الفاظ میں تنقید کی۔ بات بڑھی تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس واقعے کی تردید کی اور کہا کہ سب اچھا ہے، سب کی توجہ کھیل پر ہے اور سب بہتر نتائج کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس خبر کو منفی عناصر سے بھی جوڑا گیا۔ہو سکتا ہے کہ میڈیا نے من گھڑت خبر دی، ہو سکتا ہے مکی آرتھر کو نشانہ بنایا گیا ہو، ہو سکتا ہے کہ ٹیم میٹنگ بڑے دوستانہ ماحول میں ہوئی ہو، ہو سکتا ہے کہ مکی آرتھر نے غصے میں چیزیں ادھر ادھر نہ پھینکی ہوں، ہو سکتا ہے کہ میڈیا نے اس بارے ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا ہو۔ اگر یہ سب کچھ میڈیا کا کیا دھرا ہے تو کیا ٹیم میں ان فٹ کھلاڑی بھی میڈیا کے کہنے پر شامل کیے گئے، کیا پاکستانی بلے باز بھی میڈیا کے کہنے پر اپنی وکٹیں ضائع کرتے گئے، کیا پاکستانی میڈیا کے دباو میں آ کر آئی سی سی نے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کے خلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی کارروائی کی، کیا میڈیا کے کہنے پر گرانٹ فلاور ابھی تک بیٹنگ کوچ کے عہدے پر قائم ہیں۔ کیا پاکستان کے میڈیا کے کہنے پر ہی مکی آرتھر کو کرکٹ آسٹریلیا نے برطرف کیا تھا، کیا میڈیا کے دباو کی وجہ سے عمر اکمل کو برا بھلا کہنے کے باوجود مکی آرتھر کو فری ہینڈ دیا گیا؟؟؟؟؟
یہ درست ہے کہ ڈریسنگ روم کی باتیں باہر نہیں آنی چاہییں لیکن کیا یہ بھی درست ہے کہ کھلاڑیوں پر سختی کی جاتی رہے اور کوچنگ سٹاف کو مکمل ازادی دے دی جائے، اگر پلیئرز کا احتساب ہوتا ہے، سلیکشن کمیٹی پر تنقید ہوتی ہے تو پھر کوچنگ سٹاف کو اس عمل سے دور کیسے رکھا جا سکتا ہے۔ کامیابیوں میں نقد حصہ لینے والے ناکامیوں کا بوجھ اٹھانے سے کیوں گھبراتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ صحافیوں کو منفی عناصر کہہ سکتا ہے۔ ادارے کی حیثیت میں اظہار رائے کا حق اسے بھی حاصل ہے۔ لیکن جو حقیقی مسائل ہیں اس طرف توجہ کون دے گا۔کرکٹ بورڈ اگر یہ کہے کہ ان فٹ کھلاڑیوں کو فٹ لکھا جائے، غیر معیاری سلیکشن کو معیاری، ہار کو جیت، غلط کو درست، برے کو اچھا، دن کو رات لکھا جائے تو کیا یہ ممکن ہے اس کا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024