جنوبی افریقہ نے پاکستان کو موجودہ سیریز کے پہلے ہی ٹیسٹ میں 6 وکٹوں سے شکست دے دی۔ یوں تو پاکستان کی جنوبی افریقہ میں کارکردگی ہمیشہ سے ایسی ہی رہی ہے۔ جنوبی افریقہ اور پاکستان کے درمیان 1995ء سے لیکر آج 2018 تک 24 ٹیسٹ میچ کھیلے گئے جس میں پاکستان نے 4 ٹیسٹ جیتے۔ جنوبی افریقہ نے 13 ٹیسٹ میچ جیتے جبکہ 7 ٹیسٹ برابری پر ختم ہوئے۔ سائوتھ افریقہ میں پاکستان کی کمزور کارکردگی وہاں کی بائونسی وکٹ ہیں کیونکہ ہمارے کھلاڑی ڈیڈ اور بیٹنگ وکٹوں پر کھیلتے چلے آئے ہیں یکدم سائوتھ افریقہ میں بائونس وکٹوں پر ٹیکنیک میں بہت فرق آ جاتا ہے اسی آج آج تک پاکستان سائوتھ افریقہ سے ایک بھی ٹیسٹ سیریز ابھی تک نہیں جیت سکا البتہ اس مرتبہ چونکہ پاکستانی ٹیم کے کوچ بھی سائوتھ افریقہ سے تھے یعنی مکی آرتھر کا تعلق سائوتھ افریقہ سے ہے اس سے تھوڑی سی امید تھی کہ مکی آرتھر وہاں کی کنڈیشن اور وکٹوں سے مانوس ہیں اور وہ ٹیم کی سلیکشن بھی ایسی ہی کریں گے کہ پاکستان سائوتھ افریقہ کو مات دے پھر سائوتھ افریقہ کی ٹیم کے بڑے بڑے نام ریٹائر ہو چکے ہیں اور پاکستانی ٹیم سے عمدہ کارکردگی کی توقع تھی۔ حسب عادت پاکستانی بالروں نے عمدہ کارکردگی دکھائی مگر حسب عادت ہماری بیٹنگ پھر فیل ہو گئی اور مکی آرتھر کا کھلاڑیوں سے جھگڑا بھی اسی بات کا تھا کیونکہ مکی آرتھر کی عزت اور کوچ کی کارکردگی ک سائوتھ افریقہ میں امتحان تھا اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے کیونکہ پاکستان نے پہلی اننگ میں 181 رنز پر آئوٹ ہو کر سائوتھ افریقہ کو بھی 223 کے کم سکور پر آئوٹ کر دیا اور سائوتھ افریقہ کو صرف 42 رنز کی برتری حاصل ہوئی جو معمولی برتری کہی جا سکتی ہے اور ایک وقت پر پاکستان ٹاپ پوزیشن میں تھا جب شان مسعود اور امام الحق نصف سنچریاں بنا کر عمدہ کھیل رہے تھے اور پاکستان دوسری اننگ میں لیڈ نکال کر 250 تک اپنی لیڈ کو بڑھا سکتا تھا کیونکہ وکٹ پہلے دن کے مقابلے کافی بہتر کھیل رہی تھی کہ پاکستان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر مڈل آرڈر غیر ضروری شارٹ کھیلتے اظہر علی، اسد شفیق، بابر اعظم کپتان سرفراز احمدچاروں کے کریم بیٹسمین ڈبل فگر میں نہ جا سکے۔ یہیں سے مکی آرتھر کا پیمانہ غصے سے لبریز ہو گیا امام الحق اور شاہ مسعود کی نصف سنچریوں کے باوجود پاکستان 200 رنز دوسری اننگ میں نہ بنا سکا کچھ فیصلے بھی پاکستان کے خلاف گئے اور بقیہ کسر فیلڈروں نے کیچ چھوڑ کر پوری کر دی اس دورے میں پاکستان کو وکٹ پر ٹھہرنے والے مڈل آرڈر ٹیموں کی ضرورت تھی عثمان صلاح الدین، سمی اسلم، فواد عالم، عابد علی کو اس دورے میں خاص کر ٹیسٹ میچوں میں آزمایا جا سکتا تھا۔ سائوتھ افریقہ کی وکٹوں پر بیٹسمین کے لئے اچھے فٹ ورک کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور میرے نزدیک پاکستانی فاسٹ بالروں نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا مگر بیٹنگ ساتھ نہ دے سکی محمد عامر کو پھر ٹیم میں واپس لایا گیا اور انہوں نے میرے تبصرے کو سچ کر دکھایا جس میں میں نے لکھا تھا کہ محمد عامر ابھی بھی پاکستان کے تمام فاسٹ بالروں سے بہتر بائولر ہے اور اس نے ثابت کیا مگر جب بیٹسمین ٹیم کو بڑا سکور نہ دیں گے تو بیچارے بائولر کہاں تک ٹیم کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ اگر مکی آرتھر کی غصیلی طبیعت کو دیکھا جائے تو جو پرفارمنس بالروں نے دی اگر بیٹسمین کچھ نہ کرتے وکٹ پر صرف ٹھہرتے تو یقینی طور پر پاکستان یہ ٹیسٹ جیت سکتا تھا اور ٹیم کے چاروں بیٹسمینوں نے نااہلی کا ثبوت دیا ۔ مکی آرتھر کا غصہ جائز تھا سائوتھ افریقہ کو اتنے کم سکور پر آئوٹ کرنا پاکستانی بالروں کی بڑی کامیابی تھی جس پر تمام سینئر بیٹسمینوں نے نالائقی کا ثبوت ہے کیونکہ خاص کر اس دورے میں مکی آرتھر پر بڑا پریشر تھا یہ ملک اس کا ہوم گرائونڈ تھا اور یہاں پر سائوتھ افریقہ کو شکست دینا مکی آرتھر کا خواب کہا جا سکتا ہے اور میرے نزدیک پاکستان دونوں اننگ کی رننگ میں بھی 250 رنز کا ہندسہ لگا دیتا تو پاکستان کی جیت کے بہت امکانات تھے۔ پاکستان کے پاس 4 مڈل آرڈر بیٹسمین تھے اور چاروں ڈبل فگر نہ کر سکے غصہ تو کوچ کو آئے گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024