دسمبر کے یہی دن ہوتے ہیں جب منجمد کر دینے والی تیز برفانی ہوائیں شمال مغربی دروں میں سیٹیاں بجاتی آتی ہیں اور پورے دامان کوہ کو سُن کر دیتی ہیں۔ یہ درے ہزاروں سال سے مہم جُوفاتحین کیلئے سہولتی گزر گاہ رہے ہیں۔ وسط ایشیا، افغانستان اور موجودہ پاکستان کی تثلیث نے تاریخ کی شکست و ریخت میں مسلسل شراکت کی۔ اس علاقے میں انقلاب روس کا واقعہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے انوکھا واقعہ ہے۔ انقلاب روس نے ایک نئی سوچ کا در وا کیا۔ انہی دروں سے ٹھنڈی ہوائوں کے دوش پر سوار روسی کتابیں ہم تک پہنچنا شروع ہو گئی تھیں۔ یہ گرم انقلاب کے بارے میں ٹھنڈی کتابیں تھیں۔ ناما نوس اردو رسم الخط میں چھپی ہوئی ان تحریروں کو کچھ سر پھرے لوگ چھپ چھپ کر پڑھا کرتے تھے۔ اب وہ کتابیں ناپید ہو گئی ہیں ۔ وہ سچ کے متلاشی خواب پر ست لوگ بھی غم روز گار کی دھند میں گم ہو گئے ہیں۔ البتہ کہیں کہیں یہ لذت استدلال سے سر شار لوگ یہاں وہاں این جی او ز میں نئے سوٹ پہنے متبسم چہرے لئے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی شمال کی ٹھنڈی ہوائوں کی اور لاہور میں دسمبر کی ایک نئی شام کی۔ تھی تو دسمبر کی شام ہی مگر اسکے تیور عجیب تھے ۔ روس کے برفانی علاقوں سے ایک شخص لاہور آیا۔ ٹھٹھرے ہوئے شہرمیں جیسے گرم ہوا کا جھونکا ہو۔ تبدیلی کے خواہاں سوچنے والوںکا ہال بھر گیا۔کیااڑ سٹھ برس کی برف پگھلنے لگی ہے؟
آج کی تقریب کے مہمان خصوصی روس کے سفیر الیکسئی وائی دیدوف تھے۔ ــــــ "ــمیری آخری جنگ "کے عنوان سے کتاب کی رونمائی تھی۔اس کتاب کا مصنف سابق روسی جنرل محموت احمد ووچ گارییف ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں مصنف نے اپنی کارگردگی سے نمایاں حیثیت حاصل کر لی اور پھر کئی اہم عہدوں پر متمکن رہا ۔ اس نے دفاعی علوم اورعالمی تاریخ پر ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے۔ اس نے سوویت افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد کے حالات کے بارے میںغیر جانبدارانہ تجزیہ کیا۔ اس کتاب کا ترجمہ ڈاکٹر نجم السحربٹ نے روسی زبان سے براہ راست اردو میں کیا ۔
تر جمہ اس قدر رواں اور آسان ہے کہ قاری کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کسی دوسرے زبان سے ترجمہ کی گئی کتاب ہے۔
اس کتاب کو جمہوری پبلیکیشنز نے چھاپا۔
جمہوری پبلیکیشنزکے حوالے سے فرخ سہیل گوئیندی کو کتاب کا سفیر کہنا درست ہو گا۔یہ ادارہ کتابوں کے تراجم کے ذریعے مختلف اقوام کے درمیان پل تعمیر کر رہا ہے۔ اس کتاب کا مصنف تھا تو جرنیل مگر کتاب کے صفحات پر نہ تو اس کی جرنیلی دکھائی دی۔ نہ خود ستائی اور نہ خود نمائی ۔
در اصل یہ کتاب افغانستان کی پراکسی جنگ کے بارے میں ہے جس کو" جہاد "کے نئے معنی پہنائے گئے۔ ایک اچھوتا جہاد کا تصور دیا گیا۔ یکطرفہ پروپیگنڈے کی زد میں رہنے والی پاکستانی عوام کو اس کتاب نے اورجنل ذرائع سے ایک جداگانہ نقطہء نظر دیا۔
کئی اہم لوگ اس بات پر متفق اور مصر ہیں کہ یہ جنگ افغانستان کی جنگ تھی اور وہیں لڑی گئی۔ جب ایسے فیصلہ کن لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے مگر ہم نے تو یہی دیکھا کہ اس افغانستان میں لڑی جانیوالی جنگ نے پاکستان کو شدید زخمی کر دیا۔ وہ زخم آج بھی رِستے نظر آتے ہیں ۔ افغانستان اور پاکستان گو کہ دو علیحدہ مملکتیں ہیں مگر دونوں اس قدر ثقافتی مماثلت رکھتے اور ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں کہ ایک کے حالات دوسرے پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اگر ایک کو چھینک آئے تو دوسرے کوبھی زکام ہو جاتا ہے۔ اسی اثر پذیری کی وجہ سے مختلف ممالک کی خفیہ تنظیموں نے دونوں ممالک میں عدم استحکام پیدا کیا۔ اسلامی ممالک میں اسلامی حکومتوں کو اسلام کے حوالے سے غیر مستحکم کرنا کون سا اسلام ہے۔ خاص طور پر اسلام کے نام پر وجود میں آنیوالے ملک کو فرقہ وارانہ تحریکوں سے دھواں دھواں کر دینا کیسے اسلامی فلاح ہوسکتی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس سلگتی سرزمین پر تیل کا کام کچھ برادر اسلامی ممالک نے کر دکھایا.یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہر طرف اسلامی ممالک ہی کیوں دہشت گردی اور جنگ کا شکار ہو رہے ہیں۔عراق، افغانستان، پاکستان، لیبیا اور مصر کے بعدآج کل شام جل رہا ہے۔ اسلحہ ساز سرمایہ دار ممالک کے سیاسی اور معاشی مفادات تو قابل فہم ہیں کہ جنگ ہو گی تو اسلحہ بِکے گا لیکن دوسرے پہلو کی طرف توجہ دینی ضروری ہے۔ نظریاتی بنیاد پر آج کی یونی پولر دینا سے اسلام کے تین تصورات متصادم ہیں۔
۱۔ امہ ۲۔ خلافت ۳۔ جہاد
اول امہ کا نظریہ اتحاد بین المسلمین اور اجتمائیت کی ایسی داغ بیل رکھتا ہے جو قوم پرستی کو اپنے اندر جذب کر سکتا ہے۔ دوم خلافت مسلمانوں میں سیاسی مرکزیت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سوم جہاد ایک ایسی قوت محرکہ ہے جو آخر کار سامراج سے ٹکرانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ بالکل اسی طرح ایک نظریے نے برطانوی استعمار کو خوف زدہ کر دیا تھا۔ اسی رشوفوبیا (Russophobia) نظریہ کے نتیجے میں تین افغان جنگیں لڑی گئیں۔ آج مسلمانوں کے ان تین تصورات کو بھی رشوفوبیا کی طرح ایک مفروضہ بنا لیا گیا ہے ۔
یونی پولر دنیا میں یہ تینوں تصورات قابل قبول نہیں ہیں۔ مسلم تہذیب کے ان تین ستونوں کے انہدام کیلئے ضروری ہے کہ مسلمانوں میں وحدت اور مرکزیت کو انتشار اور بے یقینی میں تبدیل کیا جائے۔ فرقہ واریت کو ہوا دیکر امت میں باہمی تفرقہ کے بیج بوئے جائیں اور اشتعال ،دشمنی اور انتقام کی جڑیں گہری کی جائیں۔ لسانی اور علاقائی تقسیم کو جعلی شناخت کے ذریعے گروہی تصادم کی فضا قائم کی جائے۔ سامراج کے استحکام کیلئے منقسم انسانیت جیسا سیاسی اور معاشرتی ماحول ضروری ہے۔ رواداری ، امن ، انسانی بھائی چارہ اور محبت عالم سامراج کیلئے خطرناک ہیں۔ شاہ فیصل، بھٹو ، صدام ، قذافی، نجیب اللہ میں ہزار عیب سہی مگر یہ اور دیگر کئی مثاہیر ( جو اس قدر نمایاں ہوئے کہ طاقت اور اعتماد کی علامت بن گئے) کو نشان عبرت بنانا سامراجی ضرورت تھی۔
طالبان ہوں یا داعش اس قبیل کی تمام تنظیموں کی سرگرمیوں سے وحدت اسلامی کو آخر کار شدید نقصان پہنچا۔ فرقہ واریت ہو یا مذہبی منافرت، انسان کو بطور انسان کے تنہا اور کمزور کر دیتی ہیں۔
چونکہ دہشتگردتنظیمیں خفیہ اور زیر زمین ہوتی ہیں اس لئے انکی قیادت ناشناخت ہی رہتی ہے جبکہ ایسی تنظیم کا ہمیشہ ایجنڈا ہی یہی ہو تا ہے کہ نمایاں قومی قیادت کا سیاسی امیج مسخ کر دیا جائے۔ معاشرے کی یکجہتی میں دراڑیں ڈال دی جائیں۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ چونکہ ایسی تنظیم ایک عمارت کو گرانے کے بعد متبادل عمارت تعمیر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ہوتیں ۔ لہذا اس طرح ایک خلا پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ یہ نظام فطرت ہے جب بھی خلا پیدا ہو گا۔ دور سے ہوائیں اس خلا کو پر کرنے کیلئے لپک کر آتی ہیں۔
آپ کا ان دور کی ہوائوں پر کنٹرول تو ہو نہیں سکتا۔ لیکن آخر اتنا تو کیا جاسکتا ہے کہ قومی قیادت اور نظریاتی سیادت میں خلا پیدا ہونے نہ دیا جائے۔لگامیں اپنے ہاتھوں میں رکھی جائیں ۔قومی قیادت کے تسلسل کو قائم رکھا جائے اور نزدیک کے پڑوسیوں سے تعلقات پر نظر ثانی کر کے انہیں نئی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔
بات ہو رہی تھی روسی جنرل محمودت احمد ووچ کی کتاب کی، جس کا عنوان" میری آخری جنگ"ہے۔ کہیں یہ عنوان حالت جنگ کے خاتمے اور نئے امن کا استعارہ تو نہ تھا۔پیچھے پلٹ پلٹ کر دیکھنے والوں کو مستقبل میں دیکھنے کا اشارہ تو نہ تھا۔ اگر جنرل محمودت احمد ووچ کی افغانستان میں جنگ آخری تھی تو امن کا نقطئہ آغاز کہاں ہے۔
آج نہ 1948 ہے نہ1979۔ آج 2015میںنہ روس وہ رہا نہ پاکستان کسی خاص لمحے کا قیدی ہے۔ معاشرے جامد نہیں ہوتے ۔ وقت کی لہریں فکر کی ریت پر لحظہ لحظہ نئے نقوش بناتی ہی رہیں گی۔ اگر آج ٹیکنالوجی ہی برتری کا معیار ٹھہری ہے تو پھر جیسے تیسے اس جناتی قوت کو تابع رکھنا اشد ضروری ہے ۔ ہمیں پاکستان کے بارے سوچنا ہے۔ جغرافیے نے پاکستان کو مراعات یافتہ ملک بنادیا ہے۔ اگر چین سے گوادر تک راہداری بن سکتی ہے تو روس سے سمندر تک راہداری کیوں نہیں بن سکتی۔ اگر کراچی میں روس کی مدد سے سٹیل مل بن سکتی تھی تو آج زیادہ آسان شرائط پر ایسی ٹیکنالوجی روس کی مدد سے پاکستان میں روشناس کیوں نہیں کرائی جا سکتی۔ جس سے پاکستان صنعت و تجارت میں اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے۔پاکستان کی بقاتارک الدنیا ہونے میں نہیں بلکہ عالمی ترقی کے تدریحی عمل میں بلا تحفیص شامل ہونے میںہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024