ایک گمراہ کن مفروضہ یہ ہے کہ اگر کالا باغ پر اصرار کیا گیا تو وفاق کو نقصان پہنچے گا۔ وفاق ٹوٹ جائیگا۔ اور ہمیں وفاق کی قیمت پر کالا باغ ڈیم منظور نہیں۔
حقیقت میں کالا باغ ڈیم کی وفاق سے کوئی دشمنی ہے۔ نہ مقابلہ!
آبی ماہرین نے یہ انتباہ کیا ہے کہ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کالا باغ ڈیم کی عدم تعمیر کی صورت میں اور تو شاید کچھ بچ جائے۔ (خاکم بدھن) پاکستان نہیں بچے گا۔ اس کے وجود کو اس کی بقاء کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ملک بغیر پانی کے ڈوب رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کی فوری تعمیر سے پاکستان کو بچانا ضروری ہے۔ یا پاکستان کی بقاء کو خطرے میں ڈال کر ’’وفاق‘‘ کو بچالیا جائے! ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔
روایت ہے کہ ایک نمبردار کی بھینس چوری ہوگئی۔ بہت تلاش کی۔ نہ ملی، آخر طے ہوا کہ سارے گائوں سے حلف لیا جائے ۔ چنانچہ ایک دروازے کے اوپر طاق پر قرآن پاک کا نسخہ رکھ دیا گیا۔ اس کے نیچے سے گزرنے والا ہر شخص قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کے یہ حلف دیتا یا قسم اٹھاتا ہے کہ اس نے بھینس چوری نہیں کی اور نہ وہ اس بارے میں کچھ جانتا ہے۔ اگر وہ جھوٹ بولے۔ تو اس کے بچے مرجائیں!
گائوں کے سارے ہی لوگ یہ حلف دے گئے۔ چور کا لنگوٹیا یار حقیقت حال سے واقف تھا۔ اس نے اپنے میراثی دوست سے گلہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ادھیٹر عمر میں اتنی خوبصورت نرینہ اولاد سے نوازا ہے لیکن اس نے کس دیدہ دلیری سے منہ پھاڑ کر یہ کہنے کا حوصلہ کیا کہ اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے تو اس کے بچے مرجائیں۔میراثی نے کہا! قحط کا زمانہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں بچوں کو ننھیال بھیج دیا ہے۔ وہ بھی کون سے ساہوکار ہیں۔ کتنے دن ان کو روٹی کھلاسکیں گے۔ بھینس کے بغیر تو بچے یقینی موت کے منہ میں جا رہے تھے۔ اب اگر وہ میری جھوٹی قسم سے مر بھی جاتے ہیں تو چار دن دودھ مکھن کی عیاشی کر کے مریں گے۔ ویسے عین ممکن ہے کہ روٹی ٹکر کے بغیر بھی وہ محض دودھ دہی کے سہارے قحط کے دن گزار لیں۔ کوئی ضروری ہے کہ غفور الرحیم خدا، میرے جھوٹے حلف کی سزا معصوم بچوں کو دے۔ یار! ان کو بچانے کے لئے ہی رسک لیا ہے۔کالا باغ ڈیم کی عدم تعمیر سے پاکستان کی بقاء ہی خطرے میں پڑ گئی تو ہم وفاق کو کیا کریں گے اور یہ صوبے کس کام آئیں گے؟ ہاں ڈیم کی تعمیر سے زندہ و پائندہ پاکستان خوشحال ہوگا۔ تو وفاق کہیں نہیں بھاگ جائے گا!
اسفند یارولی نے ایک بیان میں کہا ہے کالا باغ ڈیم اور پاکستان کے ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔یہ الزام بھی ہے کہ بھارت کالا باغ ڈیم کو روکنے اور پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے اربوں کی (Investment) کر رہا ہے۔آپ نے مختصر جواب دیا وہ یہ ہے1۔ تین صوبوں نے اس کی مخالفت کر رکھی ہے۔2۔ حکومت کے پاس اسے بنانے کیلئے کوئی سرمایہ نہیں ہے۔3۔ حکومت نے لوگوں کو لڑانے کیلئے شوشا چھوڑ رکھا ہے اور بھارت پر محض غلط الزام ہے۔
آپ کو جلدی تھی۔ زیادہ تفصیل سے اس موضوع پر گفتگو یا بحث نہ ہوسکی لیکن آپ کے یہ اعتراضات کچھ ایسے دقیع نہ تھے کہ ان کا حل تلاش نہ کیا جاسکے!
ہمارے تھنکرز فورم میں چیئرمین چوہدری اکبر علی ایم اے، حلقہ کے مستقل میزبان، چوہدری مسعود اختر ایڈووکیٹ، پروفیسر سید شبیر حسین شاہ (یونیورسٹی آف گجرات کے عظیم سکالر جو گزشتہ سال مذہبی دہشت گردوں کا نشانہ بنے اور جنکو وجاہت مسعود سمیت قلمکاروں نے زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے) چوہدری بشیر احمد بٹر ایڈووکیٹ، ڈاکٹر محمد منور شبیر احمد ڈار ایڈووکیٹ، ایس ایم رضا، سید شبیر شاہ مدینہ، سوامی محمد اصغر گورسی، صحافی عبدالعزیز شامل تھے۔
اسفندر یار ولی جی! آپ ایسے قدر آور قومی رہنما کا نام ملک کی صدارت کے لئے بھی لیا جاتا رہا ہے۔ ہم امید رکھیں کہ آپ صوبائی سطح سے بلند ہو کر سارے صوبوں کو ایک ہی نظر سے دیکھیں گے۔ یہ یاد رہے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ تو کبھی پنجاب کا ہی حصہ رہا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے آبی جارحیت کے باعث ہماری نہریں سوکھی پڑی ہیں۔ لوڈشیڈنگ نے زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔ کارخانے بند مزدوروں کے چولہے ٹھنڈے اور ملک تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے محض آپ کی خوشنودی کی خاطر کالا باغ ڈیم کو ترک کرنے کا اعلان کرایا ورنہ 1991ء کے واٹر ایکارڈ میں چاروںصوبوں کا اس ڈیم پر مکمل اتفاق تھا۔ تینوں صوبوں میں اس وقت کون برسراقتدار ہے۔ ان صوبوں کی اسمبلیوں سے کالا باغ ڈیم کے حق میں قرار داد منظور کرانا کون سا مشکل کام ہے؟اسفندر یار ولی خاں! آج منظر یوں سمجھیں کہ ملک کے 18 کروڑ عوام کر بلا کے وسیع میدان میں ہیں۔ کڑی دھوپ ہے۔ دور تک کوئی سایہ نہیں، پانی نایاب ہے۔ ایک بوند بھی نہیں۔ مردوزن نڈھال ہیں۔ بچے بلک رہے ہیں۔قریب دریائے فرات ٹھنڈے میٹھے پانی کے ساتھ ٹھاٹھیں ما ررہا ہے۔ آپ اس کے کنارے کھڑے ہیں چند سندھی قوم پرست بھی آپ کے پیچھے نظر آرہے ہیں۔ آپ لوگوں کے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں ہیں۔ خوچے پانی نہیں پینے دیں گے۔!!!اگر آپ لوگ ان پیاسوں کو پانی دیں تو اس نیکی کیلئے آپ ثواب بھی کمائیں گے آپ اپنے وطن پاکستان کے اتنے مقبول اور قد آور رہنما کہلائیں گے کہ باچہ خان تک تو شاید آپ کا قد نہ پہنچ سکے۔ پاکستان کا کوئی لیڈر آپ کے مونڈھے مونڈھے بھی نہیں ہوگا۔(میں انشاء اللہ کالا باغ ڈیم پر اپنی کتاب ’’کالا باغ ڈیم بنائیں۔ پاکستان بچائیں‘‘ لے کر آپ کے پاس حاضر ہوں گا پھر مزید باتیں ہونگی)۔
پنجاب نے حالیہ این ایف سی ایوارڈ میں زبردست قربانی دی ہے۔ دوسرے صوبوں بالخصوص بلوچستان کو نہال کردیا ہے۔ اور وہ پنجاب کے شکر گزار ہیں۔ مگر پنجاب کی نالائق قیادت نے ان سے کالا باغ ڈیم کے مسئلہ پر بات تک نہیں کی ہے۔
’’مردہ گھوڑا‘‘ زندہ باد!
زرداری کی حکومت نے جو پہلا شاہی فرمان جاری کیا۔ وہ کالا باغ ڈیم کی موت کا پروانہ تھا۔ کوئی ماتم ہوا نہ قابل ذکر رد عمل سامنے آیا۔ تاہم اسے ’’مردہ گھوڑا‘‘ کہنے والوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ ’’مردے گھوڑے‘‘ کو بالآخر دفن کر ہی دیا گیا۔ خوب جشن منائے۔اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے۔ پانی میں جان ہے۔ پانی اس کائنات کی قیمتی متاع ہے۔ اس چشمئہ آب حیات کو ‘‘مردہ‘‘ کہنا کتنی ستم طریفی ہے۔
لیکن اگر یہ گھوڑا ہی تھا۔ تو مردہ ہر گز نہ تھا۔ ملک کے معروف ویٹرنری ڈاکٹر شمس الملک اس کی زندگی اور صحت کے بارے میں بدستور تصدیق کرتے رہے۔ اس کے باوجود ظالموں نے گڑھا کھود کر اس پر مٹی ڈال دی اور اسے زندہ درگور کر دیا۔
مگر یہ سخت جان گھوڑا زیادہ دن زیر زمین دفن نہ رہ سکا۔ کیا یہ اصحاب کہف کے زمانے کی مانند گہری نیند سے پھر جی اٹھا ہے۔ یا یہ ققنس پرندے کی طرح ایسا جاندار ہے۔ جو اپنی خاک یا خاکستر سے پھر زندگی پالیتا ہے۔ کچھ بھی ہو۔ وہ ’’صبا رفتار شاہی اصطبل کی آبرو‘‘ کل دیکھا تو دل خوش ہوا کہ ظہور پیلس کے عقب میں انکے اصطبل میں شان سے کھڑا پھنکار رہا ہے۔
’’فوجی حکمرانوں کو طعنہ‘‘
پانی و بجلی کے وفاقی وزیر کے طور پر راجہ پرویز اشرف نے قومی اسمبلی کے فلور پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے انکار کرتے ہوئے سوال کیا تھا۔ یا طعنہ دیا کہ یہاں 9-9 سال فوجی حکمران رہے ہیں۔ انہوں نے کالا باغ ڈیم کیوں تعمیر نہیں کیا؟۔
ایک صاحب کہنے لگے ان سے کوئی پوچھیں کہ پاکستان میں جو 2 بڑے ڈیم تعمیر ہوئے ہیں۔ کیا وہ گوجر خاں کے راجگان نے تعمیر کرائے تھے؟ اور ان سے یہ بھی پوچھئے کہ کیا جمہوری دور صرف اسلئے ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ لوٹ مار سے تجوریاں بھرے ا ور ولایت میں جاکر محل خریدے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38