یکم جنوری سے شروع ہونیوالے سال کا اختتام اس طرح ہوا ہے کہ جیسے ایک مہینہ گزر گیا۔ یہ سال تونہ میرا تھا نہ تیرا (2013ئ) کسی بھی بڑی پیشرفت کے بغیر گزر گیا۔ ہاں ایک ڈراما ئی کام ضرور ہوا کہ پیپلز پارٹی سے اقتدار مسلم لیگ (ن) کو منتقل ہوگیا اور اپوزیشن نے بھی چہرے بدل لئے۔ پہلے مسلم لیگ ن اپوزیشن تھی، اب پیپلز پارٹی ہے دونوں درپردہ ایک ہی چہرے کے دو رخ ہیں۔ نہ خورشید شاہ نے کبھی مخالفت کی، نہ حکومت کی نااہلیوں پر روشنی ڈالی، نہ کرپشن پر واویلا کیا۔ نہ ڈرونز پر احتجاج کیا۔ نہ آئی ایم ایف سے بے دھڑک اور بے پناہ قرضوں پر آواز اٹھائی، نہ مہنگائی پر ہنگامہ برپا کیا، نہ سی این جی تیل پٹرول کی بندش پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ آصف زرداری نے بھائی چارے کی عالمی مثال قائم کی ہے۔ صدارت چھوڑنے کے بعد ایک لفظ بھی حکومت کی ناروا پالسیوں، ناکامیوں اور بے جا اسراف کی مذمت نہیں کی بلکہ دبے لفظوں میں تائید و حمایت ہی کرتے ہیں۔ اسی لئے اُن کے خلاف نہ تو کرپشن کیسز کھلے ہیں اور نہ قانوں حرکت میں آیا ہے۔ سوئس مقدمات کے حوالے سے تو جدید ترین مذاق حکومت نے کیا۔ اُس کی نظیر نہیں ملے گی۔ جب بے نظیر ہی نہ رہی تو نظیر کیسی؟ میاں نواز شریف بھائی تو بے نظیر بھٹو کے لئے تھے لیکن بھائی چارہ آصف زرداری سے برتا۔ دنیائے اسلامی کی اولین وزیراعظم اور پاکستانی قوم کی مایہ ناز لیڈر کے قاتل نہ پکڑے جا سکے۔ عوام کے نام پر دونوں پارٹیوں نے جی بھر کر پاکستانیوں کا استحصال کیا۔ دوستی، محبت اور بھائی چارے کی اس فضا میں پانچ سال پیپلز پارٹی نے موج میلہ منایا اور اب مسلم لیگ ن کا عیش دوراں چل رہا ہے۔ صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن گنہگار نہیں ہیں۔ ایم کیو ایم بھی ماشاءاللہ ہر حکومت میں ہر بار بڑا حصہ ڈالتی ہے۔ گورنری پر تو راج چل ہی رہا ہے۔ وفاقی و صوبائی وزارتیں اور اب بلدیاتی الیکشن میں ایم کیو ایم بھاری تعداد میں پوری نفری کے ساتھ سیٹوں پر براجمان نظر آئے گی۔ جے یو آئی ف میں بھی سب لوگ صحت مند، توانا اور تگڑے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان 70سال کے ہوکے بھی 40کے لگتے ہیں۔ یہ سب کرامات بالائی آمدنیوں کی ہوا کرتی ہیں۔ اے این پی اور جماعت اسلامی نے بھی کبھی خزانوں سے منہ نہیں موڑا۔ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری ہوں یا عوامی مسلم لیگ کے لیڈر شیخ رشید ہوں۔ دونوں کے سرخ چہرے اُن کی فارغ البالی، خوشحالی، معاشی و مالی طور پر استحکام کی غمازی کرتے ہیں۔ دونوں جلسہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے ٹھاٹ باٹ اور شاہانہ جلسوں کے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو بات اربوں کو چھو لے گی۔ شیخ رشید کے جلسوں کا مزاج لاکھوں کی خبر لاتا ہے لیکن ہر بار اگر لاکھوں کو دس بارہ بار ضرب دی جائے تو یہ لاکھوں روپیہ آخرکار ارب کے اہداف کو چھو لیتا ہے۔ رہ گئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تو امیدوں کا آخری پنچھی بھی عوام کے ہاتھوں سے اُڑ گیا ہے کیونکہ آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ عمران خان نہ تو کوئی جاب کرتے، نہ کسی ادارے سے منسلک، نہ کوئی بزنس، نہ کوئی آمدن۔ لیکن وہ طیاروں میں اس طرح اُڑتے ہیں جیسے عقاب فضاﺅں میں۔ تحریک انصاف کا جلسہ ہو یا احتجاج یا دھرنا۔ ہمیشہ اس پر کروڑوں روپیہ خرچ آتا ہے۔ آخر کیسے، کس طرح کہاں سے؟ عمران خان نے جس قدر دعوے کئے اور جتنے وعدے کئے۔ وہ سب میر تقی میر کی طرح وعدے ہی رہے۔ یعنی
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا
اب سوال یہ ہے کہ اربوں روپیہ خرچ کراکے عوام کو کیا ملا۔ جواب تو یہی آتا ہے کہ ٹھینگا! لیکن اب پھر ہیرا پھیری کا نیا پروگرام یعنی بلدیاتی انتخابات کا معرکہ شروع ہونے والا ہے۔ یہ مان لیجئے کہ پاکستان جمہوریت کے لئے ساز گار نہیںہے۔ عوام تو کس قدر جمہوری مزاج کے حامل ہیں لیکن جنہیں منتخب کرتے ہیں وہ سارے ایک سے بڑھ کر ایک بادشاہ سلامت اور آمرانہ طور طریقوں والے ہوتے ہیں۔11 مئی سے 31دسمبر آ گیا، پاکستانی عوام کے ہاتھ کیا آیا۔ اتنا شور تھا کہ جی نئی حکومت آئے گی مسلم لیگ ن عوام کیلئے نجات دہندہ ثابت ہوگی لیکن ثابت یہ ہو کہ کوئی واقعہ یا حادثہ کسی کو نہیں بدل سکا برے وقت میں ساتھ دینے والوں کی قربانیوں اور وطن سے دُوری سانسوں میںبسی ہوتی۔ شکست و ریخت کا عمل نابالغ کو بھی صدیوں کا تجربہ دے جاتا ہے۔ مادر گیتی سے جدائی کوئی معمولی تجربہ نہیں کہ آدمی چار دن میں بھول جائے مگر یہ سب ہوا۔ میاں برادران نے بار بار اُنہی غلطیوں کو دہرایا۔ وہ تمام لوگ آج بھی جان کو چمٹے ہوئے ہیں جن کی صبح کا آغاز قصیدہ خوانی سے ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے یہی لوگ موجودہ دور حکومت میں سب سے زیادہ نوازے گئے ہیں اور نوازے جا رہے ہیں۔ زبان کا کیا ہے۔ تین انچ کی زبان سے ہمارے حکمرانوں اور لیڈروں نے جادو جگایا ہے۔ اس زبان سے انہوں نے زمین و آسمان کے قلابے ملائے لیکن پاکستان کو کہاں لے جا کر کھڑا کر دیا اور پاکستانی عوام تو گزشتہ 66 برسوں سے معلق ہے۔ ہم ہر روز پاکستانی لیڈروں کی پرزور تقریریں، پرشور نعرے، پرجوش وعدے سُنتے ہیں، سیدھے سادے لوگ بیچارے سر دھنتے ہیں، ہم جیسے سر پیٹتے ہیں مگر اس ساری کشاکش کا نتیجہ لاحاصلی ہے۔ لاحاصلی کے اس سمندر میں ناامیدی کا جوار بھاٹا ہے۔ حکمرانوں کا بیشتر وقت بیرون ملک دوروں، غیر ملکی مہمانوں کی آﺅ بھگت، فیتے کاٹنے، بیانات دینے اور الزام تراشیوں کی نذر ہو جاتا ہے جو باقی وقت بچتا ہے وہ نام نہاد مٹیٹنگز، ناشتے، عصرانے، ظہرانے میں گزر جاتا ہے۔ عوامی بہبود کے حوالے سے تاحال کوئی ایسا عملی کارنامہ حافظہ میں محفوظ نہیںجس سے خلوص اور عمل کی مہک آتی ہو۔ وقت کی گردش بڑی ظالم ہوتی ہے۔ تاریخ میں بڑے بڑے شہنشاہ، ظالم، جابر، آمر اور مفاد پرست سب بالاخر پیوند خاک ہوگئے۔ زندہ تو صرف کارنامے رہتے ہیں۔ ایک حاجت مند کو اپنے مصائب اور مسائل کا حل درکار ہوتا ہے۔ یہ قومی خزانہ جو لوگوں کی حق حلال کی کمائی سے وصول کرکے بھرا جاتاہے، قومی خزانے کا مصرف صرف اور صرف عوام کے گرد ہونا چاہئے۔ عوام کی شب و روز محنت مزدوری سے کشیدگی ہوئی، ٹیکسوں کی مد میں رقم کو عوامی بہبود کے کاموں میں خرچ کرنا، عوام کے سر پر احسان نہیں ہے مگر بدقسمتی کہہ لیجئے کہ قومی خزانہ کا منہ صرف حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کی طرف رہتا ہے۔ حال ہی میں حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اپنے جو اثاثے بیان کئے ہیں، اُس میں جھوٹ کے عالمی ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ یہ ساری باتیں ہم سارا سال کرتے ہیں۔ حکمرانوں کو آئینہ دکھاتے ہیں مگر شرم ان کو مگر نہیں آتی کے مصداق ہر سال کے 365 دن بیت جاتے ہیں اور نتیجہ وہی ڈھائی کے تین پات۔ سو اے دسمبر! الوداع! ممکن ہے کبھی کوئی دسمبر ایسا آئے جسے الوداع کہتے ہمارا دامن خوشیوں سے لبریز ہوا اور دل امنگوں سے سرشار!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024