وہ تو حوصلہ پاتے، دندناتے ہمارے گھروں تک آ پہنچے ہیں، ہماری زندگیاں برباد کرنے، ہمیں صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کے گھناﺅنے کھیل کو جاری بھی کر چکے ہیں اور ہم ہیں کہ ان کی ڈھائی گئی آتش و آہن کی ہر واردات کو خودکش حملہ بنا کر طالبان کے سر منڈھے چلے جا رہے ہیں۔ بس سوئی جہاں اٹکا دی گئی ہے، اس سے آگے کچھ سوچ ہی نہیںپارہے، ان کے مقاصد تو ہر حربے، ہر سازش، ہر چالبازی اور انسانیت کے قتل کے ہر کھیل سے پورے ہو رہے ہیں اور ہم کفر اسلام کے فتوﺅں سے ہی باہر نہیں نکل پا رہے۔عاشورہ محرم کے آخری دو دنوں میں جو کچھ مظفر آباد اور جتنا کچھ کراچی میں ہوا، سارے شواہد پا کر بھی ہم ان وارداتوں پر طالبان گردی کا لیبل لگائیں تو دشمن کو ہمیں مارنے کیلئے اور کس چیز کی ضرورت رہے گی۔مجھے قطعاً انکار نہیں کہ فوجی آپریشنز اور ڈرون حملوں کے ردعمل میں خودکش حملوں کی وارداتیں بھی ہوئی ہیں اور جب تک ہمارے حکمران امریکی مفادات کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک یہ جنگ جاری رکھنے کا اعلان کرتے رہیں گے، امریکی جنگی جنون کا اس دھرتی پر زور آزمایا جاتا رہے گا اور ڈرون جہازوں کو اپنی دھرتی کا سینہ چیرنے اور اپنے بے گناہ معصوم شہریوں کو کاٹنے، ادھیڑنے کی کھلی اجازت دی جاتی رہے گی۔ تب تک خودکش حملوں کو روکنا بھی ناممکن بنا رہے گا مگر گزشتہ تین چار ماہ کے دوران پشاور، لاہور، راولپنڈی، ملتان، مظفرآباد اور کراچی میں دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں، ان کے انداز اور منصوبہ بندی کا جائزہ لے کر کوئی عام فہم آدمی بھی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ یہ محض جذباتی ردعمل نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ جانی اور مالی نقصان پہنچانے کے منصوبہ کے تحت کی گئی گھناﺅنی وارداتیں ہیں۔ پھر ایسی ہر واردات کے بعد کسی جلی ہوئی انسانی نعش کا سر اور دوسرے اعضاءاٹھا کر اسے خودکش حملہ آور کا سر اور اعضا قرار دینے سے کیا اس افتاد کو ٹالا جاسکے گا جسے ہم پر توڑنے کیلئے ہمارے حکمرانوں کی مہربانیوں سے ہمارے موذی دشمن کو نادر موقع ملا ہوا ہے۔بالفرض یہی سمجھ لیا جائے کہ حالیہ دنوں میں کراچی، مظفر آباد، پشاور، لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں خودکش حملہ آوروں نے ہی بے گناہ انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں تو کیا یہی حملہ آور ان وارداتوں میں بھسم ہونے کے بعد پھر سے زندہ ہو کر شہریوں کو گولیاں مارنے اور املاک کو آگ لگانے کا کھیل بھی کھیلتے رہے ہیں۔ یہ ساری گھناﺅنی وارداتیں انتہائی منظم طریقے سے کی گئی ہیں کیونکہ وارداتیوں کو یقین ہوتا ہے کہ ان کی دہشت گردی اور لوٹ مار کا سارا عمل طالبان کے کھاتے میں ہی جائے گا اس لئے وہ بے خوف ہو کر اس وطنِ عزیز کو توڑنے، جلانے، بنجر بنانے کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔کراچی میں دسویں محرم کو ایم اے جناح روڈ پر شیعانِ حیدر کرار کے مرکزی ماتمی جلوس میں خودکش حملہ قرار پانے والی دہشت گردی کی ننگی واردات کے فوری بعد انتہائی منظم طریقے سے اور سرعت کے ساتھ جس طرح بھری پرُی مارکیٹوں، بنکوں، گاڑیوں اور پولیس چیک پوسٹوں کو نذر آتش کیا گیا، کیا تصور کیا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے عزاءداران کے وہی عزیز و اقارب اور مرکزی جلوس کے شرکاءجو غم میں ڈوبے اپنے پیاروں کی لاشیں شناخت کرنے، اٹھانے اور زخمیوں کو ہسپتالوں میں پہنچانے کا بندوبست کرنے میں مصروف تھے، اپنے ہاتھوں میں بندوق، بارود، پٹرول اور دوسرا آتش گیر مادہ اٹھائے گھیراﺅ جلاﺅ کی وارداتوں میں مصروف ہوگئے ہوں گے۔ جلوس میں شامل شیعہ علماءکرام تو جلوس کے شرکاءکو صبر کی تلقین کرتے گھیراﺅ جلاﺅ میں مصروف عناصر سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کر رہے تھے، سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر شہلا رضا بھی جو اپنے عقیدے کی بنیاد پر ہر سال خود مرکزی ماتمی جلوس میں شریک ہوتی ہیں، دہائی دے رہی تھیں کہ توڑ پھوڑ اور گھیراﺅ جلاو¿ میں مصروف عناصر حسینیت کے پیروکار نہیںہوسکتے۔ پھر یہ سب کون لوگ تھے، اچانک کہاں سے نکل آئے تھے اور آتشی مادہ کہاں سے لے آئے تھے جس کے ذریعہ وہ آگ اور خون کے کھیل کو بڑھاوا دیتے آگے بڑھتے رہے۔ جناب! ذرا کھوج تو لگایئے کہ قیمتی انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کی املاک کو یہ وحشی درندے پوری دیدہ دلیری کے ساتھ بھسم کر رہے تھے اور وہاں موجود پولیس اور رینجرز کے اہلکار یہ سارا تماشہ بس دیکھے جا رہے تھے۔ کسی ایک شرپسند کو موقع پر ہی پکڑ لیا جاتا تو کیا منصوبہ سازوں تک کھُرا نہ جا پہنچتا؟ اور کیا بس یہی اعلان کردینا اپنے اطمینان کیلئے کافی سمجھ لیا گیا ہے کہ آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک جنگ جاری رہے گی۔ جناب! آپ نے بلیک واٹر والے جن امریکی غنڈوں کو یہ پاک دھرتی اپنی آماجگاہ بنانے کا موقع فراہم کیا ہوا ہے ان کی عراق میں توڑی گئی آگ اور خون کی قیامت کا اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کے ساتھ موازنہ کریں، جواب آپ کو خود بخود مل جائے گا اور پھر بھارتی ”را“ کے چھوڑے گئے دہشت گردوں کے تو ثبوت بھی آپ کے پاس موجود ہیں۔ پھر آپ فساد کی اصل جڑ تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے۔ کیوں ایک ہی پراپیگنڈہ کرکے ملک کی سا لمیت کے درپے دشمن کا کام آسان بنائے جارہے ہیں۔ آپ کتے چھوڑے اور انسانوں کو باندھے رکھیں گے تو انجام ان بے بسوں کی چیر پھاڑ والا ہی سامنے آئے گا۔ اس لئے اب اس مادرِ وطن پر رحم کھائیں۔ اسے برباد کرنے والوں کے آلہ¿ کار نہ بنیں ورنہ اسے برباد کرنے کے عزائم رکھنے والے آپ کو چھوڑ دیں گے۔ یہ آپ کی بھول ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024