ڈاکٹر ایم اے صوفی
محترم اصغر بیٹھنی، بیٹھنی ہاﺅس نزد ونسیم کالج ڈیرہ اسماعیل خان نے اپنے ایک خط ”صوبہ سرحد یا پختونخواہ؟“ روزنامہ نوائے وقت مورخہ15مارچ2007ء میں شائع ہوا اور سوال اٹھایا کہ اس نام میں کیا حرج ہے کہ پنجابی بولنے والے صوبہ کو پنجاب کہا جاتا ہے اور سندھی بولنے والوں کو صوبہ سندھ کہا گیا۔ اب کیا حرج ہے کہ صوبہ سرحد کا نام پختون خواہ رکھا جائے جواب یوں ہے۔کہ پنجاب کا نام نہ پنجابی زبان پر ہے اور نہ ہی پنجاب کے بسنے والوں کیوجہ سے ہے۔ اس کو ”پنج آب“ یعنی پانچ دریاﺅں کی زمین کہتے ہیں۔ جس میں دریائے راوی، بیاس، ستلج، جہلم اور چناب کی وجہ سے متحدہ پنجاب کو پنجاب صوبہ کہتے ہیں۔ سندھ صوبہ دریائے سندھ کی بدولت ہے نہ سندھی زبان سے نہ سندھیوں کی وجہ سے بلوچستان کو اس لئے بلوچستان کہتے ہیں کہ بلوچ آباد تھے مگر وہاں پٹھان اور دیگر قومیں آباد ہیں درہ بولان سے بلوچستان مشہور ہوا۔صوبہ سرحد کے ساتھ درہ خیبر ہے۔ درہ خیبر کے نام پر صوبہ خیبر موضوں نام رکھا جا سکتا ہے۔ اباسین نام اس لئے اچھا ثابت ہو گا کہ دریائے سندھ کا نام اس خطہ میں اباسین ہے اور تمام مختلف زبانیں بولنے والے اس کے دریا کو اباسین کہتے ہیں۔ لہذا نہایت موزوں تاریخی اعتبار سے نام ہو سکتا ہے۔ اس طرح جغرافیائی حقیقت ”گندھارا“ علاقہ ہے یہ نام بھی موضوں ہے۔ اسلامیان رکھا جا سکتا ہے۔ پختون خواہ نام کی ہماری مخالفت کئی وجوہات پر ہے کہ صوبہ سرحد میں بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں اور اب اردو پہاڑ کی چوٹی پر بھی رہنے والا انسان بولتا ہے اور سمجھتا ہے۔ یہ نام غیر پشتون پر بوجھ ہو گا۔ بہت سارے علاقے ہند کو بولنے والوں کے ہیں۔تاریخی اعتبار سے یہ نام تخلیق پاکستان کے خلاف ہے۔ یہ نام سرحد کے ریفرنڈم1947ء کے دوران عبدالغفار خان عرف سرحدی گاندھی نے کانگرس کی ایما پر دیا اور صوبہ سرحد کو بھارت میں شامل کرنا چاہتے تھے یا آزاد پختونستان کی فرمائش پر سرحد کے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر دیا۔ صوبہ سرحد کے مسلمانوں نے اپنے ووٹ سے پاکستان کے حق میں ووٹ دیئے اور پختون خواہ پختونستان کو ریجیکٹ کر دیا۔ یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے۔ صوبہ سرحد میں پٹھانوں کی اکثریت نہیں بلکہ دوسری قومیں بھی آباد ہیں۔ پشاور شہر، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، ہزارہ میں غیر پشتون زبان ہے۔ لہذا ایسا نام تمام لوگوں کی زبانوں، کلچر، روایات کے خلاف ہےپختون خواہ نام سے پختون، پختونستان کی لہر ہے۔ جس سے علیحدگی پختونستان کے وطن کا تاثر ملتا ہے۔ یہ نام سب سے پہلے سراوایلف کیرو گورنر سرحد نے 22مئی 1947ء کو سرجے Celvileکو پارہ چنار سے تحریر کیا۔ میں نے عبدالغفار خان کو راضی کر لیا ہے کہ پختونستان کا پروپیگنڈا کرنے پر راضی ہو گئے۔ اس سے پٹھان راضی ہو جائیں گے۔ پٹھان اس کے علاقے میں مختلف ادوار میں غالب اور فاتح رہے ہیں مگر ان کے قبیلوں میں اختلاف ہیں۔ گویا پختون خواہ اور پختونستان ریاست کا نقشہ ہے۔
محترم اصغر بیٹھنی، بیٹھنی ہاﺅس نزد ونسیم کالج ڈیرہ اسماعیل خان نے اپنے ایک خط ”صوبہ سرحد یا پختونخواہ؟“ روزنامہ نوائے وقت مورخہ15مارچ2007ء میں شائع ہوا اور سوال اٹھایا کہ اس نام میں کیا حرج ہے کہ پنجابی بولنے والے صوبہ کو پنجاب کہا جاتا ہے اور سندھی بولنے والوں کو صوبہ سندھ کہا گیا۔ اب کیا حرج ہے کہ صوبہ سرحد کا نام پختون خواہ رکھا جائے جواب یوں ہے۔کہ پنجاب کا نام نہ پنجابی زبان پر ہے اور نہ ہی پنجاب کے بسنے والوں کیوجہ سے ہے۔ اس کو ”پنج آب“ یعنی پانچ دریاﺅں کی زمین کہتے ہیں۔ جس میں دریائے راوی، بیاس، ستلج، جہلم اور چناب کی وجہ سے متحدہ پنجاب کو پنجاب صوبہ کہتے ہیں۔ سندھ صوبہ دریائے سندھ کی بدولت ہے نہ سندھی زبان سے نہ سندھیوں کی وجہ سے بلوچستان کو اس لئے بلوچستان کہتے ہیں کہ بلوچ آباد تھے مگر وہاں پٹھان اور دیگر قومیں آباد ہیں درہ بولان سے بلوچستان مشہور ہوا۔صوبہ سرحد کے ساتھ درہ خیبر ہے۔ درہ خیبر کے نام پر صوبہ خیبر موضوں نام رکھا جا سکتا ہے۔ اباسین نام اس لئے اچھا ثابت ہو گا کہ دریائے سندھ کا نام اس خطہ میں اباسین ہے اور تمام مختلف زبانیں بولنے والے اس کے دریا کو اباسین کہتے ہیں۔ لہذا نہایت موزوں تاریخی اعتبار سے نام ہو سکتا ہے۔ اس طرح جغرافیائی حقیقت ”گندھارا“ علاقہ ہے یہ نام بھی موضوں ہے۔ اسلامیان رکھا جا سکتا ہے۔ پختون خواہ نام کی ہماری مخالفت کئی وجوہات پر ہے کہ صوبہ سرحد میں بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں اور اب اردو پہاڑ کی چوٹی پر بھی رہنے والا انسان بولتا ہے اور سمجھتا ہے۔ یہ نام غیر پشتون پر بوجھ ہو گا۔ بہت سارے علاقے ہند کو بولنے والوں کے ہیں۔تاریخی اعتبار سے یہ نام تخلیق پاکستان کے خلاف ہے۔ یہ نام سرحد کے ریفرنڈم1947ء کے دوران عبدالغفار خان عرف سرحدی گاندھی نے کانگرس کی ایما پر دیا اور صوبہ سرحد کو بھارت میں شامل کرنا چاہتے تھے یا آزاد پختونستان کی فرمائش پر سرحد کے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر دیا۔ صوبہ سرحد کے مسلمانوں نے اپنے ووٹ سے پاکستان کے حق میں ووٹ دیئے اور پختون خواہ پختونستان کو ریجیکٹ کر دیا۔ یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے۔ صوبہ سرحد میں پٹھانوں کی اکثریت نہیں بلکہ دوسری قومیں بھی آباد ہیں۔ پشاور شہر، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، ہزارہ میں غیر پشتون زبان ہے۔ لہذا ایسا نام تمام لوگوں کی زبانوں، کلچر، روایات کے خلاف ہےپختون خواہ نام سے پختون، پختونستان کی لہر ہے۔ جس سے علیحدگی پختونستان کے وطن کا تاثر ملتا ہے۔ یہ نام سب سے پہلے سراوایلف کیرو گورنر سرحد نے 22مئی 1947ء کو سرجے Celvileکو پارہ چنار سے تحریر کیا۔ میں نے عبدالغفار خان کو راضی کر لیا ہے کہ پختونستان کا پروپیگنڈا کرنے پر راضی ہو گئے۔ اس سے پٹھان راضی ہو جائیں گے۔ پٹھان اس کے علاقے میں مختلف ادوار میں غالب اور فاتح رہے ہیں مگر ان کے قبیلوں میں اختلاف ہیں۔ گویا پختون خواہ اور پختونستان ریاست کا نقشہ ہے۔