صدر آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ سوچ بہادر ہونی چاہئے۔
زرداری صاحب ویسے بھی بڑے بہادر ہیں‘ کیونکہ جن حالات میں وہ صدارت کی کشتی کو لئے جا رہے ہیں‘ ان میں تو بڑے بڑے جہاز ڈوب جاتے ہیں حالانکہ یہ کشتی این آر او کی لہریں‘ مخالفین کے بیانات کی لہریں‘ دھماکوں کی لہریں‘ امریکی منافقت کی لہریں‘ بجلی و گیس مہنگی اور انکی لوڈشیڈنگ ہونے کی لہریں‘ شہید بے نظیر بھٹو کے غم کی لہریں مسلسل ٹکرا رہی ہیں اور وہ اس لئے بھی بہادر ہیں کہ وہ ایوان صدر سے ایمبولینس کے بجائے تخت یا تختہ پر جائیں گے۔ انہوں نے کہا جو لوگ جمہوریت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتے ہیں‘ وہ جمہوریت سے ڈرتے ہیں اور ہم انکی آنکھیں نکال دینگے۔
سوچ بہادر ہو تو انسان کی تقریر بھی بہادر ہو جاتی ہے۔ ان دنوں وہ ثابت کر رہے ہیں کہ انکی برداشت کو کمزوری نہ سمجھا جائے‘ انکے پنجاب کے گورنر بھی بڑے بہادر ہیں‘ جنہوں نے کہا ہے چار مداری ٹی وی پر بیٹھ کر استعفوں کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ کوئی مستعفی ہو گا نہ مڈٹرم الیکشن ہونگے۔ آج کل انکی تقریریں اتنی بہادر ہوتی ہیں کہ انکے بارے میں ایک تجزیہ نگار نے تجزیہ کیا ہے کہ کیچ کے خوف سے بے نیاز ہو کر صدر نے چوکے چھکے لگا دیئے۔ ہماری رائے ہے کہ ملک کے نازک حالات کے پیش نظر پاکستان کوباہمی سیاسی لڑائی سے دور رکھا جائے۔
٭…٭…٭…٭
قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرنے کے انتظامات کرلئے ہیں۔
سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد امریکہ سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ظالمو قاضی آرہا ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ انکے ہوتے ہوئے ایسا نہیں ہو سکتا۔ مگر انہوں نے جو بات کی ہے‘ وہ بڑی خوفناک ہے۔ خدا جانے انکے ذرائع کیا ہیں مگر انہوں نے جو خبر دی ہے‘ اس کے پیش نظر پاکستان کو بھی اپنے انتظامات چیک کرلینے چاہئیں۔
یہ بات تو خیر عام ہے کہ امریکہ اسامہ کی تلاش میں نہیں‘ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے تعاقب میں ہے۔ سہالہ میں زمین خریدنے اور کہوٹہ کے قریب امریکیوں کی نقل و حرکت جیسے واقعات خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ قاضی صاحب کے بیانات پر عساکر پاکستان اور حکومت توجہ دے۔ اگر امریکہ پاکستان میں داخل ہو کر کھلی جنگ لڑ سکتا ہے تو وہ جوہری ہتھیاروں پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ مگر ہمیں افواج پاکستان پر فخر ہے کہ وہ جوہری اثاثوں کی حفاظت کرنا جانتی ہیں۔
بھارت‘ اسرائیل اور امریکہ گٹھ جوڑ کا اصل ٹاسک ہی پاکستان کے جوہری ہتھیار ہتھیانا ہے۔ پاکستان اس وقت کسی قسم کی اندرونی سیاسی کشاکش کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے کہ دشمن سر پر نہیں‘ ہمارے سینے پر چڑھے ہوئے ہیں۔
خبر ہے کہ سرگودھا سے گرفتار ہونے والے پانچ امریکیوں سے چشمہ بیراج کا نقشہ حاصل کیا گیا۔
جب دشمنوں کو دوست بنایا جائیگا تو ایسا تو ہو گا۔ آج امریکی پاکستان میں اس طرح پھرتے ہیں‘ انہیں ڈر ہے نہ کوئی خوف‘ پاکستانی امریکہ جائیں تو انکی جرابیں تک اتارلی جاتی ہیں اور امریکی پاکستان میں دندنا رہے ہیں۔ کیا اس طرح پاکستان کو شارع عام بنا دینا پاکستان کے حق میں ہے؟ سرگودھا سے جو امریکی پکڑے گئے ہیں‘ ان سے کمپیوٹر بھی ملے ہیں جن پر سے معلومات حذف کردی گئی ہیں اور چشمہ بیراج کا نقشہ یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ انکے ارادے اچھے نہیں تھے۔ وزیر داخلہ اگرچہ ان دنوں بڑے مصروف ہیں تاہم وہ کچھ وقت امریکیوں کی دھڑا دھڑ آمد و رفت کو چیک کرنے کیلئے بھی نکال لیں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی آڑ میں امریکہ نے اپنی خطرناک ایجنسیوں کے افراد پاکستان میں منتقل کر دیئے ہیں‘ جن کی سرغنہ بلیک واٹر ہے۔ اگر کہیں پاکستانیوں سے ایسے نقشے امریکہ کو ملے ہوتے تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا اور انکے خلاف سخت کارروائی کرتا چاہے وہ بے قصور ہوتے۔
٭…٭…٭…٭
نفسیاتی ماہرین نے جدید تحقیق کی روشنی میں کہا ہے کہ بڑھاپے کا خوف انسان کو جلد بوڑھا کر دیتا ہے۔
نفسیاتی ماہرین کی رائے اپنی جگہ لیکن ہماری رائے ہے کہ خوف کوئی بھی ہو‘ بوڑھا کر دیتا ہے۔ ممکن ہے مغربی ملکوں میں ایسا ہوتا ہو مگر ہمارے ہاں جب کوئی بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہ اور بھی جوان ہو جاتا ہے اور کہتا پھرتا ہے کہ لوجی ہمیں بونس مل گیا ہے اور بقول حفظ جالندھری۔ع… ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ اور اس کا ثبوت اس وقت صاف نظر آتا ہے جب ملکہ پکھراج اسے بڑھاپے میں گاتی تھیں تو جوان لگتی تھیں۔ اکثر مغربی ممالک کی بوڑھی خواتین میک اپ کرتی ہیں شاید انہیں اپنے بڑھاپے سے خوف آرہا ہوتا ہے۔ اور میک اپ سے تسلی ہو جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں تو بوڑھی عورت میک اپ کرلے تو اسے کہتے ہیں‘ بوڑھی گھوڑی لال لگام۔ یہاں پر بڑھاپے کا کیا خوف؟ یہاں تو مہنگائی کاخوف‘ گیس کی لوڈشیڈنگ کا خوف‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور مہنگی ہونے کا خوف‘ اور کتنے ہی انجانے خوف یہاں کے لوگوں کو بڑھاپے سے پہلے ہی بوڑھا کئے جا رہے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ناخالص خوراک بھی وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہے۔ بہرحال بزرگ شہری خاندانوں اور معاشروں کیلئے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں کیونکہ انکی فکر جوان ہوتی ہے۔ نوجوانوں کو انکی فکر و سوچ سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔ مرزا غالب کو اگرچہ بڑھاپے کا کوئی خوف نہ تھا‘ لیکن انہوں نے ایک موقع پر کہ دیا تھا…؎
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
اب عناصر میں اعتدال کہاں
زرداری صاحب ویسے بھی بڑے بہادر ہیں‘ کیونکہ جن حالات میں وہ صدارت کی کشتی کو لئے جا رہے ہیں‘ ان میں تو بڑے بڑے جہاز ڈوب جاتے ہیں حالانکہ یہ کشتی این آر او کی لہریں‘ مخالفین کے بیانات کی لہریں‘ دھماکوں کی لہریں‘ امریکی منافقت کی لہریں‘ بجلی و گیس مہنگی اور انکی لوڈشیڈنگ ہونے کی لہریں‘ شہید بے نظیر بھٹو کے غم کی لہریں مسلسل ٹکرا رہی ہیں اور وہ اس لئے بھی بہادر ہیں کہ وہ ایوان صدر سے ایمبولینس کے بجائے تخت یا تختہ پر جائیں گے۔ انہوں نے کہا جو لوگ جمہوریت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتے ہیں‘ وہ جمہوریت سے ڈرتے ہیں اور ہم انکی آنکھیں نکال دینگے۔
سوچ بہادر ہو تو انسان کی تقریر بھی بہادر ہو جاتی ہے۔ ان دنوں وہ ثابت کر رہے ہیں کہ انکی برداشت کو کمزوری نہ سمجھا جائے‘ انکے پنجاب کے گورنر بھی بڑے بہادر ہیں‘ جنہوں نے کہا ہے چار مداری ٹی وی پر بیٹھ کر استعفوں کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ کوئی مستعفی ہو گا نہ مڈٹرم الیکشن ہونگے۔ آج کل انکی تقریریں اتنی بہادر ہوتی ہیں کہ انکے بارے میں ایک تجزیہ نگار نے تجزیہ کیا ہے کہ کیچ کے خوف سے بے نیاز ہو کر صدر نے چوکے چھکے لگا دیئے۔ ہماری رائے ہے کہ ملک کے نازک حالات کے پیش نظر پاکستان کوباہمی سیاسی لڑائی سے دور رکھا جائے۔
٭…٭…٭…٭
قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرنے کے انتظامات کرلئے ہیں۔
سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد امریکہ سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ظالمو قاضی آرہا ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ انکے ہوتے ہوئے ایسا نہیں ہو سکتا۔ مگر انہوں نے جو بات کی ہے‘ وہ بڑی خوفناک ہے۔ خدا جانے انکے ذرائع کیا ہیں مگر انہوں نے جو خبر دی ہے‘ اس کے پیش نظر پاکستان کو بھی اپنے انتظامات چیک کرلینے چاہئیں۔
یہ بات تو خیر عام ہے کہ امریکہ اسامہ کی تلاش میں نہیں‘ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے تعاقب میں ہے۔ سہالہ میں زمین خریدنے اور کہوٹہ کے قریب امریکیوں کی نقل و حرکت جیسے واقعات خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ قاضی صاحب کے بیانات پر عساکر پاکستان اور حکومت توجہ دے۔ اگر امریکہ پاکستان میں داخل ہو کر کھلی جنگ لڑ سکتا ہے تو وہ جوہری ہتھیاروں پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ مگر ہمیں افواج پاکستان پر فخر ہے کہ وہ جوہری اثاثوں کی حفاظت کرنا جانتی ہیں۔
بھارت‘ اسرائیل اور امریکہ گٹھ جوڑ کا اصل ٹاسک ہی پاکستان کے جوہری ہتھیار ہتھیانا ہے۔ پاکستان اس وقت کسی قسم کی اندرونی سیاسی کشاکش کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے کہ دشمن سر پر نہیں‘ ہمارے سینے پر چڑھے ہوئے ہیں۔
خبر ہے کہ سرگودھا سے گرفتار ہونے والے پانچ امریکیوں سے چشمہ بیراج کا نقشہ حاصل کیا گیا۔
جب دشمنوں کو دوست بنایا جائیگا تو ایسا تو ہو گا۔ آج امریکی پاکستان میں اس طرح پھرتے ہیں‘ انہیں ڈر ہے نہ کوئی خوف‘ پاکستانی امریکہ جائیں تو انکی جرابیں تک اتارلی جاتی ہیں اور امریکی پاکستان میں دندنا رہے ہیں۔ کیا اس طرح پاکستان کو شارع عام بنا دینا پاکستان کے حق میں ہے؟ سرگودھا سے جو امریکی پکڑے گئے ہیں‘ ان سے کمپیوٹر بھی ملے ہیں جن پر سے معلومات حذف کردی گئی ہیں اور چشمہ بیراج کا نقشہ یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ انکے ارادے اچھے نہیں تھے۔ وزیر داخلہ اگرچہ ان دنوں بڑے مصروف ہیں تاہم وہ کچھ وقت امریکیوں کی دھڑا دھڑ آمد و رفت کو چیک کرنے کیلئے بھی نکال لیں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی آڑ میں امریکہ نے اپنی خطرناک ایجنسیوں کے افراد پاکستان میں منتقل کر دیئے ہیں‘ جن کی سرغنہ بلیک واٹر ہے۔ اگر کہیں پاکستانیوں سے ایسے نقشے امریکہ کو ملے ہوتے تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا اور انکے خلاف سخت کارروائی کرتا چاہے وہ بے قصور ہوتے۔
٭…٭…٭…٭
نفسیاتی ماہرین نے جدید تحقیق کی روشنی میں کہا ہے کہ بڑھاپے کا خوف انسان کو جلد بوڑھا کر دیتا ہے۔
نفسیاتی ماہرین کی رائے اپنی جگہ لیکن ہماری رائے ہے کہ خوف کوئی بھی ہو‘ بوڑھا کر دیتا ہے۔ ممکن ہے مغربی ملکوں میں ایسا ہوتا ہو مگر ہمارے ہاں جب کوئی بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہ اور بھی جوان ہو جاتا ہے اور کہتا پھرتا ہے کہ لوجی ہمیں بونس مل گیا ہے اور بقول حفظ جالندھری۔ع… ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ اور اس کا ثبوت اس وقت صاف نظر آتا ہے جب ملکہ پکھراج اسے بڑھاپے میں گاتی تھیں تو جوان لگتی تھیں۔ اکثر مغربی ممالک کی بوڑھی خواتین میک اپ کرتی ہیں شاید انہیں اپنے بڑھاپے سے خوف آرہا ہوتا ہے۔ اور میک اپ سے تسلی ہو جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں تو بوڑھی عورت میک اپ کرلے تو اسے کہتے ہیں‘ بوڑھی گھوڑی لال لگام۔ یہاں پر بڑھاپے کا کیا خوف؟ یہاں تو مہنگائی کاخوف‘ گیس کی لوڈشیڈنگ کا خوف‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور مہنگی ہونے کا خوف‘ اور کتنے ہی انجانے خوف یہاں کے لوگوں کو بڑھاپے سے پہلے ہی بوڑھا کئے جا رہے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ناخالص خوراک بھی وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہے۔ بہرحال بزرگ شہری خاندانوں اور معاشروں کیلئے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں کیونکہ انکی فکر جوان ہوتی ہے۔ نوجوانوں کو انکی فکر و سوچ سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔ مرزا غالب کو اگرچہ بڑھاپے کا کوئی خوف نہ تھا‘ لیکن انہوں نے ایک موقع پر کہ دیا تھا…؎
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
اب عناصر میں اعتدال کہاں