سکندر بلوچ
بیت اللہ محسود کی موت کے بعد میںنے اپنے 23 اگست کے کالم میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکی اس علاقے میں کوئی نیا کھیل شروع کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے نئے ایکٹرز میدان میں لائے جائینگے اور دوم دہشت گردی بڑھے گی کم نہیں ہو گی ۔میرا یہ اندازہ اب صحیح ثابت ہو رہا ہے۔دہشت گردی بہت بڑھ چکی ہے ۔ہمارے ایٹمی اثاثوں پر قبضے اور پاکستان کو تحلیل کرنے کیلئے کاروائی کی ابتداء ہو چکی ہے۔نئے ایکٹرز’’ بلیک واٹر‘‘کی شکل میں سامنے آ چکے ہیں جو اس وقت بلا روک ٹوک پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔وہ ہمارے قانون کے پابند ہیں اور نہ ہماری روایات کی انہیں پرواہ ہے۔ گاڑیوںمیں کالے شیشے لگا کر گھومتے ہیں۔ ہتھیاروں کے کنٹینرز بھر کر بغیر چیکنگ پاکستان لاتے ہیں جہاں جی چاہتا ہے گاڑیاں بھر کر ہتھیار پہنچاتے ہیں۔حساس مقامات کے فوٹو لیتے ہیں۔ انہیں کسی بات کی پرواہ نہیں۔نہ ہمارے اربابِ اختیار پوچھنے کی جرأت کر سکتے ہیں۔ ہمارے عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے عزتی کرتے ہیں۔اپنے آپ کو برتر مخلوق سمجھ کر ہمارے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو آقا اپنے غلاموں کے ساتھ کرتے ہیں۔
13دسمبر2009 کو ایک پاپولر اخبار کے فرنٹ صفحے پر ایک تربیتی ادارے کا فوٹوہے۔یہ ادارہ ڈیورنڈ لائن کیساتھ افغان علاقے میں واقع ہے۔یہ طالبان یا القاعدہ کے زیر استعمال نہیں بلکہ’’ بلیک واٹر‘‘کا تربیتی مرکزہے۔اس تربیتی مرکز کے ڈیورنڈ لائن کیساتھ ہونے سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔پہلا سوال تو یہ ہے کہ ’’ بلیک واٹر‘‘ افغانستان میں کیا کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ وہاں تو نیٹو اور امریکی افواج کی کثیر تعداد موجود ہے جو جدید اسلحے سے لیس ہے۔ پھر افغانستان میں تو پچھلے کئی سالوں سے امریکی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر چلنے والی حکومت موجود ہے جو وہی کچھ کرتی ہے جو کچھ یہ دونوں سر پرست ممالک چاہتے ہیں۔حکومت اور شمالی اتحاد کے لوگ ویسے بھی امریکہ مخالف نہیں اور نہ ہی وہ کسی قسم کی امریکہ مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔پولیس بھی انکی اپنی ہے۔اگر کوئی مخالفت ہے تو وہ پشتون علاقے ہیں جنہیں عرف عام میں طالبان کہا جاتا ہے۔جہاں نیٹو فورسز لڑلڑ کر ہر طریقے سے ناکام ہو چکی ہیںاور اب طالبان سے مذاکرات کی کوششیں کی جارہی ہیں۔نیٹو یا امریکی فورسز کے لوگ بھی پشتون علاقوں میں جاکر کسی قسم کی فوجی کارروائی کرنے کی جرآت نہیں کرتے اور نہ ہی ایسی کوئی کاروائی نظر سے گزری ہے۔پشتون یا طالبان کے اس علاقے میں کوئی بڑا دھماکہ بھی نہیں ہواجسے ’’بلیک واٹر‘‘ کے لوگوں سے منسوب کیا جائے۔دھماکے جتنے بھی ہوتے ہیں وہ کابل اور اسکے گردونواح میںہوتے ہیں۔ یہ علاقہ چونکہ حکومتی علاقہ ہے۔یہاں نیٹو فورسز تعینات ہیں تو یہاں’’بلیک واٹر‘‘ کیوں دھماکے کرائے گی؟ہو سکتاہے طالبان چھوٹے موٹے دھماکے کرتے ہوں لیکن زیادہ دھماکے صرف پاکستان کو ملوث اور بدنام کرنے کیلئے ’’را‘‘ کراتی ہے ۔یہ دھماکے سوچ سمجھ کر ایسی جگہ کرائے جاتے ہیں جس سے بھارت یا امریکہ کے مفادات پر زد پڑے اور پھر بھارت فوری طور پر پاکستان کی مداخلت کانقارہ بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے ۔ اسکے امریکی ،یورپی اور افغانی مداح بھی پورا پورا ساتھ دیتے ہیں۔’’ را‘‘ ’’موساد‘‘ اور’’ سی آئی اے‘‘ وہاں ضرورت سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں ۔ ماحول بھی انکی اپنی مرضی کا ہے اس لیے ’’بلیک واٹر‘‘ کا وہاں کوئی کردار بعیدازقیاس لگتاہے۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر’’ بلیک واٹر‘‘ کا افغانستان میں کوئی قابل ذکر کردار نہیں تو پھر اتنا بڑا تربیتی مرکز وہاں کیا کر رہا ہے؟جواب سیدھا سا ہے۔’’پاکستا نی دہشتگردوں کی تربیت‘‘ کیونکہ ’’ بلیک واٹر‘‘ پاکستان میںبہت متحرک ہے۔واضح مقاصد رکھتی ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
اب ذرا موجودہ دہشت گردی کی کاروائیوں پر غور کریںتو صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔یاد رہے کہ دہشت گردی ایک بہت ہی مشکل عمل ہے۔مانا کہ وزیرستان اور فاٹا دہشتگردی کا مرکز ہے لیکن جس شخص نے وانا بیٹھ کر کراچی یا لاہور میں دہشت گردی کرا نی ہوتی ہے اس کیلئے اسے اعلیٰ معیار کے دہشت گرد تیار کرنا ہونگے جو جسمانی اور ذہنی طور پر چاق و چوبند ہوں بلکہ موقع کیمطابق اپنے پلان میں تبدیلی کر کے حملہ آور ہو سکیں۔پھر دہشت گردی کی ایسی کاروائیاں عموماََدہشت گردوں کی موت پر اختتام پذیر ہوتی ہیں‘ اس لئے صرف ایسے لوگوں کو ہی دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے بھیجا جاتا ہے جو موت کو خوشی سے بلکہ عبادت کا درجہ سمجھ کر اپنے گلے سے لگائیں اور ایسا کرنا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں۔بڑے بڑے دلیر لوگ موت کو سامنے دیکھ کر ہمت ہار جاتے ہیں۔ اَیسا صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جوFanatic ہوں۔ جودہشت گردی کی کارروائی کرتے وقت انسانی سوچ ، مذہبی وابستگی،اور انسانی جذبات سے محروم ہوںبلکہ ایک خاص حیوانی جذبہ ان پر حاوی ہوکیونکہ اتنے زیادہ معصوم لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں۔اس کیلئے خاص سوچ کے لوگوں کو بلکہ نوجوانوں کو ایک خاص تربیت کے ذریعے دہشت گردی کیلئے تیار کیا جاتا ہے جس کیلئے یقینا خصوصی ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے جو عام لوگوںکو Fanatic بنا سکیں۔
دوسرے مرحلے میں خود کش بمبار کیلئے ہدف کا تعین ہے۔ہدف ایسا ہوتا ہے جس سے فوج ،پولیس یا دوسرے سیکیورٹی اداروں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ ایسے ادارے عموماََشہر کے گنجان آباد علاقوں میں واقع ہوتے ہیں۔دہشت گردوں کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ ایسے مقامات کی سیکیورٹی بڑی سخت ہوتی ہے اور تربیت یافتہ کمانڈوزان مقامات پر بطور محافظ موجود ہوتے ہیں۔ذرا سے شک کی صورت میں یہ سیکیورٹی اہلکار آنیوالوں کو ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی اڑا سکتے ہیں۔سیکیورٹی اہلکاروں کی مدد کیلئے ان اہم علاقوں میں سراغ رساں ایجنسیاں بھی پوری طرح چوکس ہوتی ہیں۔لہذٰاان تمام لوگوں کو جل دے کر ہی ہدف تک پہنچا جا سکتا ہے ۔اس مقصد کیلئے کوئی بھی طالبان لیڈر چاہے وہ کتناہی ذہین کیوں نہ ہو وزیرستان میں بیٹھ کر منصوبہ بندی نہیں کر سکتا۔
تیسرے مرحلے میں ہدف کے انتخاب اور اس تک پہنچنے اور پھر مئو ثر کاروائی کیلئے تفصیلی منصوبہ بندی کی ضرورت پیش آتی ہے جس کیلئے بہت ہوشیاری سے کئی دن اس ہدف کی نگرانی ضروری ہے۔ہدف کے علاقے میں مختلف لوگوں کے آنے جانے کے اوقات، حفاظتی گارڈز کی تعداد اور رویہّ،ڈیوٹی کے اوقات، علاقے میں لگے ہوئے حساس کیمرے،انٹیلی جنس ایجنسیوںکے لوگ،عام آدمیوں کی آمدورفت وغیرہ۔ تمام حالات و واقعات کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے اور یہ ایک دن کا کام نہیں۔ اس کیساتھ ساتھ یہ احتیاط بھی ضروری ہے کہ وہاں بار بار جانے سے کسی کو خصوصاََ سراغ رساں ایجنسیوں کو شک نہ گزرے ورنہ منصوبہ ساز ادھر ہی پکڑے جائینگے۔ایسی پلاننگ ایک عام اور ان پڑھ دہشت گرد کے بس کی بات نہیں۔اس مقصد کیلئے اکثر اوقات جائے ہدف پر کام کرنیوالے اندرکے لوگوں کو بھی خریدا جا تا ہے۔یقینا ہدف کا انتخاب اور ہدف پر حملے کی منصوبہ بندی ایسے لوگوںکا کام ہے جو ایسی کارروائیوں کے ماہرہوں۔تما م مقامات پر آزادی سے گھوم سکتے ہوں۔لوگوں کو خریدنے یا تعاون حاصل کرنے کیلئے ضروری وسائل اور بھاری رقوم خرچ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔(جاری ہے)
بیت اللہ محسود کی موت کے بعد میںنے اپنے 23 اگست کے کالم میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکی اس علاقے میں کوئی نیا کھیل شروع کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے نئے ایکٹرز میدان میں لائے جائینگے اور دوم دہشت گردی بڑھے گی کم نہیں ہو گی ۔میرا یہ اندازہ اب صحیح ثابت ہو رہا ہے۔دہشت گردی بہت بڑھ چکی ہے ۔ہمارے ایٹمی اثاثوں پر قبضے اور پاکستان کو تحلیل کرنے کیلئے کاروائی کی ابتداء ہو چکی ہے۔نئے ایکٹرز’’ بلیک واٹر‘‘کی شکل میں سامنے آ چکے ہیں جو اس وقت بلا روک ٹوک پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔وہ ہمارے قانون کے پابند ہیں اور نہ ہماری روایات کی انہیں پرواہ ہے۔ گاڑیوںمیں کالے شیشے لگا کر گھومتے ہیں۔ ہتھیاروں کے کنٹینرز بھر کر بغیر چیکنگ پاکستان لاتے ہیں جہاں جی چاہتا ہے گاڑیاں بھر کر ہتھیار پہنچاتے ہیں۔حساس مقامات کے فوٹو لیتے ہیں۔ انہیں کسی بات کی پرواہ نہیں۔نہ ہمارے اربابِ اختیار پوچھنے کی جرأت کر سکتے ہیں۔ ہمارے عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے عزتی کرتے ہیں۔اپنے آپ کو برتر مخلوق سمجھ کر ہمارے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو آقا اپنے غلاموں کے ساتھ کرتے ہیں۔
13دسمبر2009 کو ایک پاپولر اخبار کے فرنٹ صفحے پر ایک تربیتی ادارے کا فوٹوہے۔یہ ادارہ ڈیورنڈ لائن کیساتھ افغان علاقے میں واقع ہے۔یہ طالبان یا القاعدہ کے زیر استعمال نہیں بلکہ’’ بلیک واٹر‘‘کا تربیتی مرکزہے۔اس تربیتی مرکز کے ڈیورنڈ لائن کیساتھ ہونے سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔پہلا سوال تو یہ ہے کہ ’’ بلیک واٹر‘‘ افغانستان میں کیا کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ وہاں تو نیٹو اور امریکی افواج کی کثیر تعداد موجود ہے جو جدید اسلحے سے لیس ہے۔ پھر افغانستان میں تو پچھلے کئی سالوں سے امریکی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر چلنے والی حکومت موجود ہے جو وہی کچھ کرتی ہے جو کچھ یہ دونوں سر پرست ممالک چاہتے ہیں۔حکومت اور شمالی اتحاد کے لوگ ویسے بھی امریکہ مخالف نہیں اور نہ ہی وہ کسی قسم کی امریکہ مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔پولیس بھی انکی اپنی ہے۔اگر کوئی مخالفت ہے تو وہ پشتون علاقے ہیں جنہیں عرف عام میں طالبان کہا جاتا ہے۔جہاں نیٹو فورسز لڑلڑ کر ہر طریقے سے ناکام ہو چکی ہیںاور اب طالبان سے مذاکرات کی کوششیں کی جارہی ہیں۔نیٹو یا امریکی فورسز کے لوگ بھی پشتون علاقوں میں جاکر کسی قسم کی فوجی کارروائی کرنے کی جرآت نہیں کرتے اور نہ ہی ایسی کوئی کاروائی نظر سے گزری ہے۔پشتون یا طالبان کے اس علاقے میں کوئی بڑا دھماکہ بھی نہیں ہواجسے ’’بلیک واٹر‘‘ کے لوگوں سے منسوب کیا جائے۔دھماکے جتنے بھی ہوتے ہیں وہ کابل اور اسکے گردونواح میںہوتے ہیں۔ یہ علاقہ چونکہ حکومتی علاقہ ہے۔یہاں نیٹو فورسز تعینات ہیں تو یہاں’’بلیک واٹر‘‘ کیوں دھماکے کرائے گی؟ہو سکتاہے طالبان چھوٹے موٹے دھماکے کرتے ہوں لیکن زیادہ دھماکے صرف پاکستان کو ملوث اور بدنام کرنے کیلئے ’’را‘‘ کراتی ہے ۔یہ دھماکے سوچ سمجھ کر ایسی جگہ کرائے جاتے ہیں جس سے بھارت یا امریکہ کے مفادات پر زد پڑے اور پھر بھارت فوری طور پر پاکستان کی مداخلت کانقارہ بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے ۔ اسکے امریکی ،یورپی اور افغانی مداح بھی پورا پورا ساتھ دیتے ہیں۔’’ را‘‘ ’’موساد‘‘ اور’’ سی آئی اے‘‘ وہاں ضرورت سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں ۔ ماحول بھی انکی اپنی مرضی کا ہے اس لیے ’’بلیک واٹر‘‘ کا وہاں کوئی کردار بعیدازقیاس لگتاہے۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر’’ بلیک واٹر‘‘ کا افغانستان میں کوئی قابل ذکر کردار نہیں تو پھر اتنا بڑا تربیتی مرکز وہاں کیا کر رہا ہے؟جواب سیدھا سا ہے۔’’پاکستا نی دہشتگردوں کی تربیت‘‘ کیونکہ ’’ بلیک واٹر‘‘ پاکستان میںبہت متحرک ہے۔واضح مقاصد رکھتی ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
اب ذرا موجودہ دہشت گردی کی کاروائیوں پر غور کریںتو صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔یاد رہے کہ دہشت گردی ایک بہت ہی مشکل عمل ہے۔مانا کہ وزیرستان اور فاٹا دہشتگردی کا مرکز ہے لیکن جس شخص نے وانا بیٹھ کر کراچی یا لاہور میں دہشت گردی کرا نی ہوتی ہے اس کیلئے اسے اعلیٰ معیار کے دہشت گرد تیار کرنا ہونگے جو جسمانی اور ذہنی طور پر چاق و چوبند ہوں بلکہ موقع کیمطابق اپنے پلان میں تبدیلی کر کے حملہ آور ہو سکیں۔پھر دہشت گردی کی ایسی کاروائیاں عموماََدہشت گردوں کی موت پر اختتام پذیر ہوتی ہیں‘ اس لئے صرف ایسے لوگوں کو ہی دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے بھیجا جاتا ہے جو موت کو خوشی سے بلکہ عبادت کا درجہ سمجھ کر اپنے گلے سے لگائیں اور ایسا کرنا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں۔بڑے بڑے دلیر لوگ موت کو سامنے دیکھ کر ہمت ہار جاتے ہیں۔ اَیسا صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جوFanatic ہوں۔ جودہشت گردی کی کارروائی کرتے وقت انسانی سوچ ، مذہبی وابستگی،اور انسانی جذبات سے محروم ہوںبلکہ ایک خاص حیوانی جذبہ ان پر حاوی ہوکیونکہ اتنے زیادہ معصوم لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں۔اس کیلئے خاص سوچ کے لوگوں کو بلکہ نوجوانوں کو ایک خاص تربیت کے ذریعے دہشت گردی کیلئے تیار کیا جاتا ہے جس کیلئے یقینا خصوصی ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے جو عام لوگوںکو Fanatic بنا سکیں۔
دوسرے مرحلے میں خود کش بمبار کیلئے ہدف کا تعین ہے۔ہدف ایسا ہوتا ہے جس سے فوج ،پولیس یا دوسرے سیکیورٹی اداروں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ ایسے ادارے عموماََشہر کے گنجان آباد علاقوں میں واقع ہوتے ہیں۔دہشت گردوں کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ ایسے مقامات کی سیکیورٹی بڑی سخت ہوتی ہے اور تربیت یافتہ کمانڈوزان مقامات پر بطور محافظ موجود ہوتے ہیں۔ذرا سے شک کی صورت میں یہ سیکیورٹی اہلکار آنیوالوں کو ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی اڑا سکتے ہیں۔سیکیورٹی اہلکاروں کی مدد کیلئے ان اہم علاقوں میں سراغ رساں ایجنسیاں بھی پوری طرح چوکس ہوتی ہیں۔لہذٰاان تمام لوگوں کو جل دے کر ہی ہدف تک پہنچا جا سکتا ہے ۔اس مقصد کیلئے کوئی بھی طالبان لیڈر چاہے وہ کتناہی ذہین کیوں نہ ہو وزیرستان میں بیٹھ کر منصوبہ بندی نہیں کر سکتا۔
تیسرے مرحلے میں ہدف کے انتخاب اور اس تک پہنچنے اور پھر مئو ثر کاروائی کیلئے تفصیلی منصوبہ بندی کی ضرورت پیش آتی ہے جس کیلئے بہت ہوشیاری سے کئی دن اس ہدف کی نگرانی ضروری ہے۔ہدف کے علاقے میں مختلف لوگوں کے آنے جانے کے اوقات، حفاظتی گارڈز کی تعداد اور رویہّ،ڈیوٹی کے اوقات، علاقے میں لگے ہوئے حساس کیمرے،انٹیلی جنس ایجنسیوںکے لوگ،عام آدمیوں کی آمدورفت وغیرہ۔ تمام حالات و واقعات کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے اور یہ ایک دن کا کام نہیں۔ اس کیساتھ ساتھ یہ احتیاط بھی ضروری ہے کہ وہاں بار بار جانے سے کسی کو خصوصاََ سراغ رساں ایجنسیوں کو شک نہ گزرے ورنہ منصوبہ ساز ادھر ہی پکڑے جائینگے۔ایسی پلاننگ ایک عام اور ان پڑھ دہشت گرد کے بس کی بات نہیں۔اس مقصد کیلئے اکثر اوقات جائے ہدف پر کام کرنیوالے اندرکے لوگوں کو بھی خریدا جا تا ہے۔یقینا ہدف کا انتخاب اور ہدف پر حملے کی منصوبہ بندی ایسے لوگوںکا کام ہے جو ایسی کارروائیوں کے ماہرہوں۔تما م مقامات پر آزادی سے گھوم سکتے ہوں۔لوگوں کو خریدنے یا تعاون حاصل کرنے کیلئے ضروری وسائل اور بھاری رقوم خرچ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔(جاری ہے)