تین سال بعد احسان مانی رخصت ہوئے ان کی رخصتی یہ پیغام اور یاد دہانی ہے کہ زندگی بھر عہدوں پر تو کوئی رہ نہیں سکتا، کبھی عہدہ چھین لیا جاتا ہے، کبھی سانس رک جاتی ہے، ہمیشہ تو کچھ بھی نہیں رہتا، صبح و شام دھوپ چھاؤں، اتار چڑھاؤ یہ تو فطری چیزیں ہیں ایسے ہی عہدے، مرتبے، ذمہ داریاں بدلتی رہتی ہیں۔ غیر ضروری طور پر عہدوں سے چمٹے رہنا، کرسی کی محبت میں، طاقت کے نشے میں اقتدار کے زعم میں انسانوں کے ساتھ نامناسب رویے سے شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، طاقت و اقتدار کا اختتام تو بہرحال ہو ہی جاتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کبھی رسی دراز ضرور ہو جاتی ہے لیکن اختتام ضرور ہوتا ہے۔ کاش یہ حقیقت پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر سید عارف حسن اور ان کے حواری بھی سمجھ جائیں ویسے یہ کافی مشکل ہے کیونکہ کرسی کی محبت قوت سماعت اور بینائی چھین لیتی ہے۔ طاقت کے زعم میں آنکھیں کام تو کرتی ہیں لیکن انسان حقائق دیکھنے اور سچی آوازوں سے محروم ضرور ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ احسان مانی کے ساتھ بھی ہوا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ان کا شکریہ ادا کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کرکٹ کے لیے ایسا کچھ نہیں کیا کہ ان کا شکریہ ادا کیا جائے تین سال تک جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں ہمیں سجدہ شکر ادا کرنا چاہیے کہ ایک ظالم چیئرمین سے جان چھوٹی، ان کے دور میں کرکٹ سے منسلک ہزاروں افراد پر ظلم ہوا اور ظالموں کی رخصتی پر شکریہ ادا نہیں کیا جاتا۔قارئین کرام یہ وہ احسان مانی ہیں جن کے دور میں کرکٹرز پر بہتر مستقبل کے دروازے بند ہوئے، کرکٹ کے میدانوں کو تالے لگے، نوجوان کرکٹرز کھیل کے میدانوں سے نکل کر معمولی ملازمتوں پر مجبور ہوئے، یہ وہ احسان مانی ہیں جو کم تنخواہ والے ملازمین کو بوجھ قرار دے کر فارغ کرتے اور پسندیدہ یا بااثر افراد کو کروڑوں سالانہ تنخواہوں پر بھرتی کرتے رہے، یہ وہ احسان مانی ہیں جن کے دور میں آوازوں کو دبانے کی کوشش ہوتی رہی، یہ وہ احسان مانی ہیں جنہوں نے میرٹ کا قتل عام کیا، ملک کے نوجوانوں میں مایوسی پھیلائی، خود تین تین اداروں کے چیئرمین بنے رہے اور کھلاڑیوں کو دوہری ملازمتوں سے روکتے رہے، نہ انہیں مالی طور پر مسائل کا سامنا رہا نہ کسی اعلیٰ افسر کی تنخواہ میں تاخیر ہوئی لیکن میرے ملک کے کرکٹرز کی تنخواہوں میں تاخیر ہوتی رہی، ان کے اپنے اور اعلیٰ افسران کے فائیو سٹار ہوٹلز میں قیام اور ڈیلی الاؤنس کبھی نہیں رکے لیکن میرے ملک کے کرکٹرز کے معاوضوں میں کٹوتی ہوتی رہی۔ یہ وہ احسان مانی ہیں کہ جو تین سال میں ایک منافع بخش منصوبہ شروع کرنے میں ناکام رہے، ان کے دور میں کھیل کے میدانوں کو ہرا بھرا رکھنے اور کھیل کے میدانوں کو آباد کرنے والے روتے رہے لیکن طاقت کے زعم میں انہوں نے برسوں اپنا خون پسینہ دینے والوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ کوئی اوپر سے آتا تو اس پر خزانوں کے منہ کھول دیتے لیکن اگر بورڈ میں ملازمت کے دوران کوئی دنیا سے چلا جاتا تو اس کے خاندان میں کسی کو ملازمت سے صاف انکار کر دیتے۔ کیا ان کا شکریہ ادا کرنا بنتا ہے۔ اس کا فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔یہ وہ احسان مانی ہیں جو سولہ اپریل 2019 کو غرور بھرے لہجے میں رات کے کھانے پر کوئٹہ کے ایک ہوٹل میں بورڈ کے منتخب اراکین کو حکم دے رہے تھے کہ کل سب کاغذات پر بغیر دیکھے سوچے سمجھے دستخط کریں، کوئی سوال نہ کرے، کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے، کوئی انکار نہ کرے۔ سولہ اپریل کو اس کھانے پر نعمان بٹ نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا جناب احسان مانی صاحب آپ نے بورڈ میٹنگ کا ایجنڈا بروقت نہیں بھیجا، اب تک کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ میٹنگ ملک کے کرکٹرز کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کے لیے ہے اور ہم کبھی اس پر دستخط نہیں کریں گے۔ سترہ اپریل کو نعمان بٹ، کبیر خان، شاہ دوست، شاریز روکھڑی اور ایاز بٹ نے اکثریت کے ساتھ احسان مانی کی آمریت قائم کرنے، امپورٹڈ سی ای او کی تقرری، نوجوانوں کے لیے کھیل کے مواقع کم کرنے اور محکمہ جاتی کرکٹ ختم کرنے کے منصوبے کو مسترد کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ نعمان بٹ کے علاوہ باقی سب "مانی آمریت" کی گود میں بیٹھ گئے لیکن نعمان بٹ آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ سترہ اپریل کو پیش کی جانے والی قرارداد کوئٹہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جہاں نعمان بٹ نے احسان مانی کی آمریت کو للکارا۔ آج احسان مانی رخصت ہو چکے ہیں لیکن سارے ملک کے کرکٹرز قرارداد کوئٹہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تاریخ انکار کرنے والوں کو یاد رکھتی ہے، ہاں میں ہاں ملانے والوں کا کوئی شکریہ ادا نہیں کرتا، نجم سیٹھی کہتے ہیں احسان مانی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ وزیراعظم عمران خان کو ان کے ماڈل پر انکار کرتے لیکن نعمان بٹ نے اس ماڈل کو ماننے سے انکار کیا۔احسان مانی کی رخصتی سے ملک میں ایک سیاہ دور خاتمہ تو ہوا ہے۔ ملک بھر کے کرکٹرز، منتظمین نئے خواب دیکھ رہے ہیں لیکن خواب بکھر بھی سکتے ہیں، امیدیں ٹوٹ بھی سکتی ہیں۔ چھ ٹیموں والے ماڈل اور اس کے نیچے جس طرح تباہی ہوئی ہے کھیل کی بحالی آسان نہیں ہے لیکن ہم محروم لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی خوش ہوتے ہیں۔ رمیز راجہ کو نجات دہندہ سمجھا جا رہا ہے ان پر بھاری ذمہ داری ہے۔ ان کی کامیابی کے لیے ڈھیروں دعائیں ہیں، انہوں نے ملک کے لیے عالمی کپ جیتا ہے اب انہوں نے عالمی کپ جیتنے والے کھلاڑیوں کو تیار کرنا ہے، نوجوانوں کی آنکھوں میں پائی جانے والی چمک کو برقرار رکھنا ہے، ان پر ہزاروں کرکٹرز کی نظریں ہیں۔ توقعات کا بوجھ ہے۔ عاقب جاوید کہتے ہیں کہ کامیابی صرف انصاف، ایمانداری اور سمجھداری سے ممکن ہے۔ کرکٹ کے حقیقی راجہ بننے کے لیے رمیز راجہ کو ہزاروں کرکٹرز کی زندگیوں کو آسان اور کھیل کو پرکشش بنانا ہو گا۔ وہ ہنسنے مسکرانے کے عادی ہیں اب انہیں اپنے ملک کے ہزاروں کرکٹرز کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنی ہیں، کرکٹ کے راجہ کو دلوں کا راجہ بننے کے لیے دلوں کو جیتنا ہے، بند دروازے کھولنے ہیں۔ نفرتوں کو ختم کرنا ہے۔ جو کرکٹرز کھیل سے الگ ہوئے انہیں واپس لانا ہے اور جو کھیل رہے ہیں ان کا معیار بلند کرنا ہے۔ اللہ آپکو بہتر فیصلوں کی توفیق اور کامیابیاں عطائ فرمائے۔ آپ کو احسان مانی اور سید عارف حسن بنںے سے پچائے۔ آمین
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38