ایک لطیفہ ملاحظہ فرمائیں کہ ایک حاجی صاحب انتہاء کے کنجوس تھے، صرف انہیں اپنی پرواہ تھی، ذاتی مفاد کے لیے وہ کچھ بھی کرلیتے تھے مگر اجتماعی مفاد سے بھاگ جاتے تھے۔ فرض شناسی اُن پر ختم تھی، لیکن صرف اپنی ذات کی حد تک۔ نہ جانے اُن کے اندر یہ عادات اس معاشرے نے انڈیل دیں تھیں یا وہ پیدائشی ہی ایسے تھے۔ ایک دن کوئی غریب اور پریشان حال شخص حاجی صاحب کے پاس پہنچ گیا اور حاجی صاحب کو اپنے مسائل، اپنے مصائب بتانے لگا، حاجی صاحب نے اس کے مسائل سنے تو ان کا دل بھر آیا، انھوں نے جیب سے رومال نکالا اور دھاڑیں مار کر رونے لگے، پریشان حال شخص کو محسوس ہوا حاجی صاحب کا دل پسیج گیا ہے، یہ جیب سے ابھی رقم نکالیں گے یا اپنے منیجر کو بلوائیں گے اور میری مدد فرما دیں گے مگر حاجی صاحب نے روتے روتے منہ پر رومال رکھا، گھنٹی بجائی، منیجر کو بلوایا اور ضرورت مند کی طرف اشارہ کر کے بولے ’’ اس شخص کو باہر نکال دو، اس نے رلا رلاکر میرا برا حال کر دیا ہے۔‘‘
یہ لطیفہ اگر ہم اس معاشرے پر ثبت کریں تو ’’حاجی صاحب‘‘ ہم عوام ہیں اور پریشان حال شخص حکومت ہے۔ جو یہ بتانا چاہتی ہے کہ اُس کے لیے پہاڑ جیسے مسائل سراُٹھائے کھڑے ہیں، پچھلی حکومتوں نے اس ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے اور ملک کے خزانے خالی پڑے ہیں۔ مگر عوام ہے کہ ’’مخول‘‘ سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کو باعث ’’مجبوری‘‘ آپ کھول لیں ہر طرف آپ کو ہیلی کاپٹر کے پروں کی آوازیں سنائی دیں گی، ایسے لگے گا جیسے ملک کی24کروڑ آبادی میں سے ہر کوئی انجینئر بنا ہوا ہے، پورے ملک میں ’’ہاسا‘‘ پڑا ہوا ہے اور ایسے لگ رہا ہے جیسے ہم دنیا کی خوشحال ترین قوم ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حقیقت میں ہم عجیب قوم ہیں ۔ عقل و فہم سے عاری جہالت و جذباتیت میں ڈوبے ہوئے لوگ، کسی کو پسند کریں توسروں پربٹھالیں اور نفرت کریں تو اس کا جیناہی محال کردیں،ہم بحیثیت قوم ایک انتہائی ’’زندہ دل‘‘ قوم واقع ہوئے ہیں زندگی کے چھوٹے چھوٹے انفرادی مسائل سے لیکر بڑے بڑے قومی مسائل پر ہمارا غیر سنجیدہ اور بے فکرانہ رویہ ہمیں ایک بہترین ’’مذاقیہ‘‘قوم ثابت کرتا ہے۔ عقل سے عاری باتیں اور چٹکلوںسے سوشل میڈیا پر اس قوم کا کوئی ہم پلہ نہیں،یہ قوم نہ خوش رہتی ہیں اور نہ کسی کو خوش دیکھ سکتی۔
کسی نے اگر ہیلی کاپٹر کے سفر کو وزیر اعظم کے لیے بہترین قرار دیا کہ اس سے لوگوں کی تکلیف کم ہو گی تو ایسے ایسے مسخرے بلوں سے نکل آئے جیسے وہ کسی تاک میں بیٹھے یہی انتظار کر رہے تھے کہ نہ جانے کب نئی نویلی حکومت بات کے نیچے آئے تو اسے دبوچ لیا جائے۔ہمارا یہی ’’مذاقیہ‘‘رویہ زندگی کے عام اور نارمل معاملات میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے ،ہر بات پر بحث کرنااور بحث کرتے ہوئے دلیل کی جگہ بدزبانی کا مظاہرہ ہماری بیمار سوچ کو ظاہر کرتا ہے ۔ میں یہ باتیں اس لیے نہیں کر رہا کہ حکومت کو ان باتوں سے کوئی تکلیف پہنچ رہی ہے بلکہ اس لیے کر رہا ہوں کہ ہمارے اندر تعمیری سوچ ختم کر دی گئی ہے۔ اور یہ سوچ یقینا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ختم کی گئی ہے۔ چلیں مان لیا کہ اگر تحریک انصاف نے کفایت شعاری پالیسی اپنا لی اور اس میں اس سے غلطیاں بھی ہو رہی ہیں تو یقینا یہ لوگ اصلاح کی جانب بھی بڑھ رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق حکومت نے وفاقی سطح پر ان دس بارہ دنوں میں تین چار ارب روپے کی بچت کی ہے۔ اس بابت وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پہلے عوامی خطاب میں اعلان کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں رہائش اختیار نہیں کریں گے، بلٹ پروف گاڑیاں فروخت کر دیں گے اور اپنے لیے پروٹوکول میں کمی کریں گے۔کفایت شعاری اور خرچے کم کرنے کی بحث نے زور اس وقت پکڑا جب خبر سامنے آئی کہ وزیر اعظم اپنی ذاتی رہائش گاہ بنی گالا سے اپنے دفتر تک سفر کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کر رہے ہیں جس پر ایک طوفان برپا ہو گیا کہ یہ کیسی کفایت شعاری ہے۔وزیرِاطلاعات فواد چوہدری نے اپنے تئیں بات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ معمولی بات ہے اور ہیلی کاپٹر کے اس سفر پر ’’ہیلی کاپٹر کا خرچ 50 سے 55 روپے فی کلومیٹر ہے‘‘ لیکن اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر تنقید کی بھرمار ہو گئی۔ بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی بنا دی گئی، اس میں غلطی فواد چوہدری کی بھی ہو سکتی ہے جن سے یہ بات ہینڈل نہ ہو سکی۔ ورنہ قارئین کو یاد ہو گا کہ جب شہباز شریف، نواز شریف، حمزہ شہباز یا اُن کا خاندان بائے روڈ جاتی عمرہ جاتے تھے تو 35 ،35لاکھ روپے تک خرچہ آیا کرتا تھا۔ اور شکر ہے خدا کا ہماری یہ تجویز بھی کسی نے مانی کہ عوام کو کم سے کم تکلیف میں رکھا جائے۔اور پروٹوکول کم سے کم استعمال کیا جائے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جس دن وزیر اعظم کی لاہور آمد ہوتی تھی تو کئی کئی گھنٹے سڑکیں بند رکھ کر عوام کو خوار کیا جاتا تھا۔
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ہیلی کاپٹر کے استعمال میں کتنا فیول استعمال ہوتا ہے کتنا نہیں ۔ لیکن اتنا کم بھی استعمال نہیں ہوتا جتنا فواد چوہدری نے کہا اور اتنا زیادہ استعمال بھی نہیں ہوتا جتنا خورشید شاہ نے کہہ دیا۔ بس اتنا علم ہے کہ پہلے سے موجود ہیلی کاپٹرز کا اگر آپ استعمال کررہے ہیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں اگر نئے خریدے جا رہے ہیں تو اس پر واویلا بھی ہونا چاہیے اور ہمیں یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ عمران خان کی جان کو را، موساد اور سی آئی اے سے خطرہ ہے اور انہیں اس مختصر عرصے میں 6سے زیادہ تھریٹ موصول ہو چکے ہیں۔وزیر اعظم کی جان بہت قیمتی ہے۔اس لئیے وہ اپنی حفاظت کے لیے کوئی بھی قدم اٹھائیں ہمیں ان کے ساتھ ہونا چاہیے۔اوریہ عمران خان کی گریٹنس ہے کہ انہوں نے اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے روڈز کے استعمال کو ترجیح نہ دی،یہ اُن کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے اپنے لیے روڈز پر سینکڑوں کی تعداد میں نہ تو اہلکار تعینات کیے اور نہ گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک کو روکے رکھا۔ بلکہ مجھے یاد ہے کہ اسلام آباد میں پچھلے ادوار میں پروٹوکول کے نام پر ائیر پورٹ کے روڈز تک کو بند کر دیا جاتا تھا اور جب آپ گھر سے ائیر پورٹ کے لیے نکلتے تھے کہ تو اس چانس پر ہوتے تھے کہ پتا نہیں وقت پر پہنچا بھی جا سکے گا یا نہیں ، کیوں کہ راستے میں کسی نہ کسی کا روٹ لگا ہوتا تھا۔ بلکہ میرے خیال میں اس کی تقلید دوسروں کو بھی کرنی چاہیے اور عوام کو کم سے کم تکلیف دینے کے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں بے شمار اور مسائل چھوڑ کر ہم نے بے تکا ایشو اُٹھا لیا ہے ۔ اسی لیے میں یہ کہنے پر مجبور ہوا ہوں کہ ہم مانیں یا نا مانیںسچ یہی ہے کہ ہم حقیقت میں مخولیے بن چکے ہیں۔ ہمارے سیاستدان اور میڈیا بھی اس ایشو پر اس طرح سیاست کر رہے ہیں جیسے پاکستان میں اب ہیلی کاپٹر سیاست کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں تمام معاملات میں سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارا رویہ ’’حاجی صاحب‘‘ جیسا غیر سنجیدہ رہا تو ہم کچھ نہیں کر پائیں گے ۔ملائشیا جیسا ملک اُسی وقت ترقی کی منازل طے کر سکا جب سچا لیڈر مہاتیر محمد اور قوم ایک منزل کی جانب چل پڑے اس لیے ہمیں بہترین قوم اور ملک بننے کے لیے بہت سی منزلوں کو سنجیدگی سے طے کرنا پڑے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024