میں آج کل ’’پاکستان ٹو‘‘ یعنی لندن میں ہوں جہاں کے پرُ فضاء مقامات ہمارے سیاستدانوں کے دماغ میں سرائیت کر چکے ہیں۔ یہاں آج کل پاک انگلینڈ کے چرچے عام دکھائی دیتے ہیںکئی مقامات پربڑی بڑی سکرینیں بھی لگائی جاتی ہیں جہاں دیکھنے والوں کی زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہی ہوتی ہے۔ اور غیر ملک میں پاکستان کے حق میں نعرے لگنا بہت اچھا لگ رہا ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان مخالف نعرے لگانے والا شخص بھی یہیں کہیں رہتا ہے۔ لیکن دل کرتا ہے کہ بس۔ بس چھوڑیں۔ چونکہ یہاں کے قوانین آزادی رائے کا سب کو ’’حق‘‘دیتے ہیں اس لیے بس آپ دل میں ہی گالیاں نکال سکتے ہیں۔ لیکن پاکستانی کرکٹ ٹیم جو آج کل ہمارے ساتھ کر رہی ہے اس پر صرف صبر شکر ہی کیا جا سکتا ہے!۔ یہ تو تھی دل کی باتیں جو زبان پر آتے آتے قلم پر آ گئیں۔ اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف یعنی 3 ستمبر کے عمران خان کے جلسے پر۔ عمران خان 3 ستمبر کو لاہور میں انسانوں کا سمندر لانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ مگر یہ سمندر تحریک انصاف کی کمزور تنظیم سازی، گہرے اختلافات اور مالی دشواریوں کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔ اگر اسے فلاپ شو نہ بھی کہا جائے تب بھی اس میں ماضی کی گرم جوشی لانے کے لیے سر توڑ کوششیں کرنا ہوں گی۔ لاہور ہی کی اگر بات کی جائے تو یہاں بیسیوں گروپ بن چکے ہیں اور گزشتہ روز یہ خبر پڑھ کر دل بوجھل ہو گیا کہ یہاں موجود ایک طبقے کی رائے ہے کہ علیم خان نے لاہور کے جلسوں اخراجات سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قائد اعظمؒ کا فرمان ہے کہ تنظیموں کے پہیے فنڈز کے پیسوں سے چلائے جاتے ہیں، اور تنظیمیں چلتی بھی باہمی فنڈنگ سے ہے نہ کہ اکیلے بندے کے کاندھوں پر اور رہی بات علیم خان کی تو وہ لاہور ریجن کے صدر ہیں، اور ویسے بھی قائدین پر اتنا بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے۔ اور جنہیں یہ علم نہیں کہ آئندہ انتخابات میں انہیں ٹکٹ ملے گی بھی یا نہیں تو وہ کیوں 5دس لاکھ روپے خرچ کریں گے۔۔۔
اسی لیے میں اکثر کہتا رہا ہوں کہ کرکٹ ٹیم کی طرح سیاسی پارٹی چلانے کی کوشش کرنا عمران خان کو سخت مہنگا پڑرہا ہے ، جس کا نقصان انہیں گذشتہ بیس سال سے مسلسل ہورہا ہے لیکن وہ اس وبال سے جان چھڑوانے میں ناکام ہیں۔ 1997ء میں پہلے الیکشن سے لے کر تادمِ تحریر تحریک انصاف ایک پارٹی کی بجائے ایک گروہ ہے، جس میں موقع پرست ہر دور میں آگے بڑھ کر عمران خان کااعتماد حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہے اور اپنے مفادات کے مطابق پارٹی پالیسیوں پر اثر انداز ہوکر عمران خان کو غیر محسوس طریقے سے استعمال بھی کرتے رہے، جس نے تحریک انصاف کے ان کارکنان کو ہمیشہ سائیڈ لائن کیا جنہوں نے نظریاتی بنیادوں پر اس پارٹی کے لئے قربانیاں دیں اور اسے موجودہ مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اب لاہور میں تنظیمی مسائل مزید اُلجھ رہے ہیں،شاہ محمود قریشی گروپ کی جانب سے آدھے لاہور کے صدر بننے والے ولید اقبال اور جنرل سیکرٹری حماد اظہر نے باقی آدھے لاہور کے صدر ظہیر عباس کھوکھر اور جنرل سیکرٹری اعجاز ڈیال کو نظر انداز کرکے فیصلے شروع کر دئیے گئے ہیں۔ جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ ہفتہ کی رات 3 ستمبر کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے اجلاس میں ریلی کے پوائنٹس اور انچارجز کا فیصلہ ہوا مگر اتوار کے روز ولید اقبال نے ظہیر عباس کھوکھر اور کمیٹی کے کنوئینئر اعجاز چوہدری کی مشاورت اورمنظوری کے بغیر پوائنٹ اور انچارج تبدیل کر دئیے جس پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ یہاں ایک اور بات کی نشاندھی کرتا چلوں کہ ولید اقبال اور حماد اظہر نے انصاف مرکزکے نام سے ایک علیحدہ گروپ بنایا تھا اور یہ وہ گروپ تھا جس نے عمران خان کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ لاہور کی قیادت انصاف مرکز کے حوالے کردے۔ اور اب حماد اظہر اور ولید اقبال کے درمیان مسائل پیدا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ فنڈ ریزنگ کرنا ان نچلی قیادتوں کا کام ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ کون کتنے پیسے دیتا ہے۔ ماضی میں علیم خان نے اپنی جیب سے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے ایونٹس کامیاب کرواتے رہے۔ اس مرتبہ ایسا دکھائی نہیں دیتا جبکہ ولید اقبال کے صدربننے پر ناراض رہنمائوں اور کارکنوں کی دلچسپی بھی نہایت کم ہو گئی ہے۔ اور ان اختلافات کی وجہ سے ہی قارئین کو یاد ہو گا کہ ماضی میں حلقہ این اے 122، بلدیاتی انتخابات اور لاہور کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو کس برے طریقے سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مذکورہ الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو نا صرف بیرونی بلکہ اندرونی طور پر بھی اختلافات کی وجہ سے ووٹرز کو ایک دوسرے کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے اکسایا جاتا رہا۔
یہ بات بھی خاصی مشہورہوئی کہ اسلام آباد میں یوم تاسیس کے موقع پر جب عمران خان نے جہانگیر ترین کے گھر کھانے پر ، یونٹی اور نظریاتی گروپ کے درمیان پیدا ہوئی چپقلش ختم کرنے کے لئے سب کو بلایا تو کھانے کی میز پر شاہ محمود قریشی اور چودھری سرور کے درمیان تلخ کلامی شروع ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے گالم گلوچ میں بدل گئی اور عمران خان غصے میں میز سے اٹھ کر چلے گئے۔ ذرائع کہتے ہیں یہاں بھی عمران خان چودھری سرور سے متفق تھے ، لیکن معاملہ اتنا گرما گیا کہ وہ نا صورتحال پر قابو پاسکے اور نہ غصے پر۔اس سے قبل شاہ محمود قریشی کے جہانگیر ترین اور چودھری سرور کے بارے میں جو الفاظ کہے وہی ان جماعتی انتخابات کو ملتوی کرنے کا باعث بن گئے۔ پانامہ لیکس کی صورت میں پی ٹی آئی کو انتخابا ت ملتوی کرنے کا بہانہ مل گیا ورنہ جو جنگ و جدل وہاں شروع ہوچکی تھی وہ تین چار رہنماؤں کو ضرور نگل جاتی۔ اکثر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اختلافات مسلم لیگ ن میں بھی ہیں اور پیپلز پارٹی کے بھی لیکن وہ اْس نہج کے کیوں نہیں جوتحریک انصاف میں ہیں۔؟ تو عموماً اس کا جواب یہی ملتا ہے کہ میاں صاحبان اور زرداری صاحب ،کبھی ٹکٹوں کی تو کبھی عہدوں کی تقسیم ایسے کرتے ہیں کہ ہر کوئی خوش رہے ، جبکہ عمران خان یہ سب ہینڈل نہیں کر پاتے۔تحریک انصاف کے تمام چھوٹے بڑے رہنمائوں کے لیے میں صرف اتنا کہوں گا کہ وقت بہت کم ہے اور مقابلہ بہت سخت ہے۔ اگر انہیں اختلافات کو آگے لے کر چلنا ہے تو یہیں بس کردیں۔ کیونکہ بالغ النظر میں بُرا رونے سے چپ رہنا بہتر ہوتا ہے۔ ان نازک حالات میں انصاف مرکز کی یہ ذمہ داری بن چکی ہے کہ وہ کھلے بندوں تمام اندرونی اختلافات کو ختم کریں اور جو نمائندگی کا حق رکھتے ہیں انہیں کھلے دل سے تسلیم کریں۔
مجھے اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ اختلافات ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن تحریک انصاف لندن سے لے کر دنیا کے دوسرے کونے تک ہر جگہ اختلافات سے اٹی پڑی ہے، آج کے دشمن کل کے دوست اور کل کے دوست آج ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ منشا سندھو، حامد معراج اور سردار کامل کی مثال ہی لے لیں جو کل تک علیم خان کے ساتھ قدم بقدم چلتے رہے اور آج وہ ان کا نام لینے کیلئے بھی تیار نہیں
میرے ذاتی خیال میں عمران خان نے چوہدری سرور کو ضائع کر دیاہے ۔وہ ایمانداری اور دیانتداری کی اپنی مثال آپ ہیں۔وہ خاصے شریف انسان ہونے کی وجہ سے ہماری روایتی سیاست میں گھل مل نہ سکے۔ انہوں نے پارٹی کیلئے اپنا تن ، من دھن سب کچھ قربان کیا۔عمران خان کو یہ بھی چاہیے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں اور غلط فیصلوں سے سبق سیکھیں۔ ایک بہترین انسان اور لیڈر وہی ہوتا ہے، جو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے، اور انہیں مستقبل میں نہ دہرائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38