میثاقِ اخلاق
پاکستان کا تو پہلا اور آخری کیس ہی قرضہ ہے۔ وہ قرضہ جو نصف فیصد بھی شاید عوام پر استعمال نہ ہوا ہو۔ قرض در قرض اوپر سے سب سے بڑی لعنت سود در سود۔ اس کو حکمران معاف کروانے کی کوشش کرتے تو کامیابی کہلاتی ۔مؤخر کروانا تو شکنجہ میں ہی رہنے کے مترادف ہے۔ اقتصادی استحکام ہو یا مالیاتی نظم کی بحالی اور عام آدمی کی خوشحالی کبھی بھی فردِ واحد کے ہاتھوں ممکن رہی تھی اور نہ ہی توقع کی جاسکتی ہے۔ اصل بات ہے توبڑی تلخ مگر سچ کہ جب ناگفتہ بہ حالات میں اشرافیہ پھل پھول سکتی ہے تو عام پاکستانی کیوں نہیں ؟ یہاں ساری جدوجہد کا مدار ایک ہی نقطہ پر ہے اور وہ ہے نیت۔ برسوں سے نیت باندھنے اور عمل کرنے کا میراقلمی جہاد جاری ہے یقین واثق ہے کہ ایک دن ضرور کامیابی کا سنگِ میل عبور کرلے گا۔ بہرحال اچھی توقع ہے اور یہ بھی کہ نئے وزیر خزانہ اس سنگین ایشو کو (جو دراصل ہماری تمام تر قومی تاریخ کا ناسور ہے) لازمی فہرست اول میں رکھیں گے۔ معیشت اور عام آدمی کی حالت ٹھیک ہونی چاہیے بھلے کوئی بھی وزیر خزانہ ہو۔ اِس سے فرق نہیں پڑتا ترجیح اول عام آدمی ہو ۔ حالات ایسے ہوں کہ حضرت فاروق اعظمؓ کا دور یاد آجائے کہ زکوۃ لینے والا کوئی نہ رہے۔
حکومت 5سال میں سودی نظام مکمل ختم کرے۔قوانین میں جہاں بھی انٹرست کا لفظ آتا ہے یکم جون تک ختم کر دیا جائے ۔ ربا کی تمام موجودہ صورتیں ممنوع۔ 20 برس کے طویل عرصہ بعد شرعی عدالت کا فیصلہ۔ گو طویل مدت مگر صد شکر کہ حقیر کوشش کی اور کر رہی ہوں ۔ ایک تسلسل سے مضامین لکھے ۔ بارہا عدالتوں ۔ حکومتوں کو یاد دہانی کروائی ۔ نجی محافل میں بھی سود کے خلاف لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں ۔ یہ بھی میرا یقین ہے کہ اللہ رحمان،رحیم،کریم ایک دن ضرور شرف قبولیت ۔ عزت سے نوازے گا۔ پنجاب میں سودی کاروبار کے خلاف سزا۔ قانون کا اعلان ہوچکا ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحب کو چاہیے کہ قانون کی مؤثر مانیٹرنگ ذاتی طور پر کریں تاکہ متوقع نتائج برآمد ہوں۔شرعی عدالت کے فیصلہ کو 5ماہ سے اوپر ہونے کو ہیں ۔ جون تک قوانین سے انٹرسٹ کا لفظ والے حکم کے ضمن میں اب تک کیا عمل درآمد ہو؟ حکومت قوم کو لازمی آگاہ کرے۔ مزید براں سودکے خاتمہ کے لیے عملی اقدامات کیا ہوئے ؟ وہ بھی ضرور بتائے جائیں تاکہ عوام کو تسلی ہو کہ ہم میں سے کوئی بھی اللہ اور رسول ﷺ کے خلاف جنگ لڑنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ نہ ہی ہم میں کِسی کی اتنی طاقت ہے کہ وہ آسمانی فیصلوں کے خلاف لڑائی مول لے ۔ حق یہی ہے کہ جب قرآن مجید میں تمام تفصیلات ، احکامات موجود ہیں تو پھر کسی زمینی بندوبست کی کوئی گنجائش نہیں رہتی تھی پر جب معاملہ عدالت کے سپرد کر دیا تو فیصلہ کے نفاذ کی کلیدی ذمہ داری سراسرحکومت وقت کی ہے۔ ہم سب کی گردنیں جکڑی ہوئی ہیں۔ یہ 30کروڑ نفوس کی گردنوں کا شکنجہ ہے۔
خوشی ہوئی کہ عمران خان نے قومی قرضہ اتارنے کیلئے مہم چلانے کا عندیہ دیا۔ عمران خان یا جس نے بھی قرض اتارنے کا فریضہ سر انجام دیدیا تو پکی جنت۔ بہت اچھا ارادہ ۔ امید ہے کہ جب نیت صاف ہو تو پہاڑ بھی مٹی بن جاتے ہیں بس یہ عہد کریں کہ آئندہ کوئی بھی قرض نہیں لے گا۔ ضروری ہے کہ سب مل بیٹھ کر عہد کریں۔اداروں کا قیام لازمی طور پر کچھ مقاصد کے حصول کیلئے لایا جاتا ہے اور کچھ ادارے یقینی طور پر مستقل حد کے ساتھ قائم رہنے کے لیے بنتے ہیں عارضی یا مستقل جو بھی ہوں سب کا احترام۔ تقدس ازحد ضروری ہے۔ ہر معاملہ حد درجہ احتیاط کا متقاضی ہے بلاوجہ گھسیٹنا ۔ بیانات کا حصہ بنانا کسی طور پر مفید تھا اور نہ ہے۔ فیصلوں کا نفاذ اور احترام یہ دونوں لمحہ موجود میں اشد ضرورت بن چکے ہیں ۔ بلا خوف اورآئین کے مطابق نظم ریاست چلانا اور اقدامات کرنا ۔ ملکی بقا کے لیے بہت لازمی ہے کہ کسی بھی خلاف قانون عمل کو برسوں تک لٹکانے پر قانونی حد مقرر کر دی جائے ۔ کوئی بھی کیس ہو ۔ 8سال یا 10سال کیوں چھپائے رکھا یا معاملات دانستہ نا دانستہ لٹکائے رکھا۔ درست یا غلط ؟یہ تو ماہر قانون ہی وضاحت دے سکتا ہے۔ بہتر ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے متعلق توشہ خانہ ہے یا کچھ اور معاملات بیک وقت فیصلے صادر کر دیے جاتے۔ انتہائی محترم الیکشن کمیشن کے خلاف پورے ملک میں ایک فضا بنی ہوئی ہے اگر اس کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچا جاتا تو جانبداری کے الزام سے بچنا ممکن تھا ۔صاف ۔ شفاف ضمنی الیکشن کے نتائج گو گواہی ہیں خود سے تمام الزامات کی نفی کرتے ہیں پر ضروری ہے کہ تمام فریقین ذاتی لڑائی۔ سیاسی اختلافات کے درمیان اداروں کوالزامات دینا چھوڑ دیں۔ مل بیٹھ کر ’میثاقِ اخلاق‘ مرتب کریں ۔ متفق علیہ بیانیہ طے کرنے کے بعد دستخط کیے جائیں۔ کیونکہ ملکی فضا انتہائی غیر مہذب الفاظ ، برتاؤ، ذاتی حملوں، نازیبا زبان سے مکدر ہوچکی ہے جو کہ بچوں کے لیے نہ صرف ضرورساں ہے بلکہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں بھی سدراہ ہے وقت کا تقاضا ہے سب مل بیٹھ کر ’میثاقِ اخلاق‘ مرتب کریں ۔ تمام سیاسی جماعتیں ، سماجی گروہ مشاورت کر کے اس پر دستخط کر کے قومی چارٹر قرار دیدیں ۔ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے منظور کروالیں بہت بڑی خدمت ہوگی بلکہ ملک اور قوم کے لیے نیگ شگون ثابت ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا کوئی بھی سیاسی فرداور گروہ بیرونی ممالک سے فنڈز حاصل کر سکتا ہے۔ فنڈنگ دو طرح کی ہوتی ہے (1) بیرونی حکومتوں سے براہ راست (2)بیرون ملک مقیم شہریوںسے ۔ اگر قانونی جواب نفی میں ہے تو پھر آج سے ہی مکمل پابندی کا اعلان کر دیں۔ ممنوعہ فنڈنگ اور اسمگلنگ دو مختلف معاملات مگر جواز یا پابندی کے تناظر میں ایک جیسے ۔ اسمگلنگ خلاف قانون مگر سرحدوں پر صورتحال یکسر متضاد۔ ایک مرتبہ ’ون ورلڈ آرڈر‘ عنوان سے لکھا کہ پابندی ہے تو پھر مکمل بند اگر نہیں تو پھر سب قوانین ختم کر دیں۔