جمعة المبارک، 3ربیع الاول 1444ھ، 30 ستمبر 2022ئ
گزشتہ روز چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت ہونیوالے اجلاس میں اس وقت انتہائی دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب کسٹوڈین آف دی ہاﺅس نے پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان کو ایوان کی دادی قرار دے دیا۔
شیری رحمان سیاست کے میدان کی منجھی ہوئی کھلاڑی ہیں‘ وہ اپنی سیاست کی طویل اننگ آج بھی کھیل رہی ہیں جو انکی پارٹی سے محبت اور پارٹی کا ان پر اعتماد کا ہی اظہار ہے۔ ایوان میں اور بھی بزرگ سیاست دان ہیں اور ان کا پارٹی سے لگاﺅ بھی اپنی مثال آپ ہے لیکن کچھ چیزیں خاص لوگوں کے حصے میں آتی ہیں۔ شیری رحمان کو ایوان کی دادی کا خطاب ملنا ان کیلئے قابل فخر ہے۔ انہوں نے چیئرمین سینٹ کی جانب سے دیئے گئے خطاب پر برا منانے کے بجائے کسٹوڈین آف دی ہاﺅس کو برجستہ جواب دیتے ہوئے داد سمیٹی کہ ”میں آپ کی دادی ضرور ہوں لیکن کسی کی دادا گیری نہیں چلنے دوں گی۔“ انکے ان جملوں پر ایوان میں قہقہے گونج اٹھے جس سے ایوان میں خوشگوار فضا پیدا ہو گئی۔ سیاست میں اختلافات ہونا اور تنقید کرنا جمہوریت کا حسن ہے۔ لیکن ان اختلافات کو اس نہج تک لے جانا مناسب نہیں جس سے گندی سیاست جنم لے۔ آجکل ایسی ہی سیاست کی جا رہی ہے جو ہم سب کیلئے لمحہ¿ فکریہ ہے۔ اسی ایوان میں ایک اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کی رہنما محترمہ شیریں مزاری نے چیئرمین سینٹ کو ”یار“ کہہ کر مخاطب کیا تو ایوان قہقہوں سے گونج اٹھا جس سے ایوان کا کشیدہ ماحول کشت زعفران بن گیا۔ اور پھر یہ فضا صرف ایوان تک محدود نہیں رہی‘ پورے ملک میں اسکی خوب دھوم مچی جو پریشان حال عوام کے فکرمند چہروں پر مسکراہٹ لانے کا باعث بنی۔
٭....٭....٭
مشیر اطلاعات پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے کہا ہے کہ اسحاق ڈار کو خزانے کی چابی دینا معیشت کے ساتھ مذاق ہے۔
معیشت کے ساتھ یہ مذاق پہلی بار نہیں ہو رہا‘ پچھلے کئی سال سے ہماری معیشت دنیا میں تماشا بنی ہوئی ہے جس کی بحالی کیلئے کبھی دوست ممالک کی طرف دیکھنا پڑتا ہے تو کبھی عوام پر بھاری بھرکم ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ معیشت کو اوپر لے جانے کے دعوے تو بلند بانگ کئے جاتے ہیں اور ہر وزیر خزانہ وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد قوم کو یہی یقین دلاتا ہے کہ وہ معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرکے دکھائے گا جس کے بعد قوم بھی اس سے امید باندھ لیتی ہے کہ شاید یہ شخص اقتصادیات کا ماہر ہے‘ ممکن ہے معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والا ہی قوم کے سامنے آتا ہے۔ اس وقت معیشت اس قدر لاغر ہو چکی ہے کہ ملک دیوالیہ ہوا نظر آرہا ہے۔ جب ذمہ داروں سے سوال کیا جائے کہ معیشت کیوں نہیں پنپ رہی تو ان کا جواب آئیں بائیں شائیں ہوتا ہے یا سارا ملبہ بیرونی مالیاتی اداروں پر ڈال کر ہاتھ جھاڑ لئے جاتے ہیں۔ قوم کو پچھلے کئی برسوں سے یہی تجربات کرکے دکھائے جا رہے ہیں‘ کبھی اس میں بہتری لانے کیلئے شکلیں تبدیل کر دی جاتی ہیں تو کبھی اسے تقویت پہنچانے کیلئے عوام کو قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے۔ اس طرح معیشت تو اپنے پاﺅں پر کھڑی نہیں ہو پاتی البتہ بھاری ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد عوام ضرور ادھ موئے ہو جاتے ہیں۔ سرکار کی سطح پر شاید یہ تصور پختہ ہوچکا ہے کہ عوام کے پاس بے بہا دولت ہے‘ انہیں بھاری ٹیکسوں سے کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ غریب عوام جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں فاقہ زدہ ہو چکے ہیں‘ قرض لے کر ٹیکس ادا کرنے کے بعد انکے پاس صرف سانسیں ہی رہ جاتی ہیں۔ خدا کی پناہ بجلی کے نرخوں میں تو ایسے اضافہ کیا جارہا ہے جیسے قوم سے بھتہ وصول کیا جارہا ہے۔ عوام اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ وہ بجلی کے بل جمع کرانے سے قاصر ہیں یا دوسرے غیرقانونی ہتھکنڈوںپر مجبور ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک 9 سالہ بچے پر بجلی چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ بے شک عدالت نے اسکی ضمانت منظور کرلی لیکن اس بچے کے اس انتہائی اقدام پر ریاست کے حکمرانوں کو فکرمند ہونا چاہیے۔ اگر عوام کے بنیادی مسائل حل نہ کئے گئے تو چھوٹی عمر کی مجبوریاں عوام کو عادی مجرم بنا دیں گی۔
٭....٭....٭
ڈالر مزید سستا‘ چار روز میں ڈالر کی قیمت 7.53 روپے کم ہو گئی۔
چلو یہ تو اچھی بات ہے۔ ”ڈ“ سے ڈالر اور ”ڈ“ سے ڈار دونوں ہی ایک دوسرے سے بہت جلد آشنا ہو گئے ہیں اسی لئے ڈالر ڈار (ہرنوں کا جھنڈ) کی صورت میں آسمان سے نیچے کی طرف آنا شروع ہو گیا ہے۔ اسکے پیچھے کیا راز ہے‘ یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا‘ لیکن ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں‘ بس معیشت مستحکم ہونی چاہیے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے اور حکمرانوں کے پاس انہیں ریلیف نہ دینے کا پھر کوئی جواز باقی نہ رہے۔ ہمیں ڈالر کے نیچے آنے پر زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے‘ اس سے پہلے بھی کئی بار ڈالر نیچی پرواز کر چکا ہے‘ بات تو تب ہے جب اسکے پر کاٹ کر مستقل طور پر اسے اڑنے کے قابل نہ رہنے دیا جائے۔ دیکھیں ڈار صاحب اسکے پر کب اور کیسے کاٹتے ہیں۔ بظاہر تو بہت مشکل نظر آرہا ہے‘ اگر نیت صاف ہو تو کوئی کام مشکل نہیں ہوتا۔ قائداعظم کی شکل میں ایک دھان پان شخصیت نے انگریز حکومت اور ہندوﺅں سے لڑ کر سات سال کے قلیل عرصہ میں مسلمانوں کو ایک الگ خطہ لے کر دے دیا مگر افسوس ہم پچھتر سال بعد بھی اسے کامیاب ریاست نہ بنا سکے اور نہ ہی اسکی معیشت بہتر کر سکے‘ اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ قائد کے بعد اس ملک کو درست سمت میں چلانے والا کوئی عالی دماغ میسر ہی نہیں آیا یا یہ ریاست نیتوں کے فتور کی نذر ہو گئی۔ لیکن ہمیں موجودہ حکومت کے عزم اور ڈار صاحب کے مصمم ارادوں سے امید کی کرن نظر آرہی ہے‘ دیکھیں وہ ان چیلنجز سے نمٹ کر کب سرخرو ہوتے ہیں۔
٭....٭....٭
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے نارکوٹکس عطا تارڑ نے کہا ہے کہ بیرون ملک بدتمیزی‘ ہلڑ بازی کرنیوالوں کے کریکٹر سرٹیفکیٹ منسوخ کرائیں گے۔
جناب یہ ظلم نہ کریں! اس پر خاموشی ہی بہتر ہے۔ اگر کریکٹر سرٹیفکیٹ کی منسوخی شروع ہو گئی تو میدان بالکل خالی ہو جائیگا۔بہتر ہے کہ:
پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاﺅ
پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا
اس پردے کے پیچھے آپکی اپنی ”ادا“ بھی چھپی رہے گی جو آپ نے بھری پارلیمنٹ میں فحش اشارہ کرتے ہوئے سب کے سامنے پیش کی تھی۔ اس لئے ان سرٹیفکیٹس کو فائلوں میں ہی پڑا رہنے دیں‘ ورنہ اس ”حمام“ کے کئی کریکٹر سامنے آجائیں گے۔ نہ جانے وہ وقت کب آئیگا جب ہمارے سیاست دان عوام الناس کی خدمت کرکے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سیاست کریں گے۔ فی الحال تو کردار کشی کرکے ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ اس سے انکی اپنی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔قوم کیسے بھول سکتی ہے کہ ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے دار آج شیروشکر ہیں۔ عوام اب باشعور ہو چکے ہیں‘ الزامات کی سیاست زیادہ دیر نہیں چل سکتی اور نہ ہی اس سے عوام کو مطمئن کیا جا سکتا ہے بہتر ہے کہ انکے مسائل حل کرکے انکے سامنے سرخرو ہوا جائے۔