آڈیو لیکس: سیاسی قیادت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سیاسی قیادت اپنے بنیادی کام کو چھوڑ کر باقی سارے کاموں پر توجہ دیتی ہے، اور ان کاموں میں سر فہرست یہ معاملہ ہے کہ مخالفین کو عوام کے سامنے گندا کیسے کیا جائے۔ یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے اور شاید ہی کوئی سیاست دان ایسا ہو جس کے مخالفین نے اسے ذلیل کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی اقدام نہ کیا ہو۔ ان حالات میں کسی سدھار کی توقع اس لیے نہیں کی جاسکتی کہ ہر سیاسی جماعت کی قیادت ان کاموں میں ملوث ہے خواہ اس کا تعلیمی پس منظر اور نظریاتی شناخت کچھ بھی ہو۔ الزام تراشی کو ہمارے ہاں سیاست میں فرضِ عین سمجھا جاتا ہے، لہٰذا ہر سیاست دان اپنے مخالفین پر کیچڑ اچھال کر اپنے حامیوں کو مطمئن کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے حامی بھی اتنے میں ہی خوش ہو جاتے ہیں اور اس سے یہ نہیں پوچھتے کہ جو کام آپ کے ذمے تھا وہ آپ نے کیا یا نہیں!
سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اس معاملے میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے ہیں اس لیے وہ اپنے سیاسی مخالفین کو رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ رواں برس اپریل کے اوائل میں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹنے کے بعد انھوں نے یہ کام زیادہ شد و مد سے شروع کردیا۔ اس معاملے کو منفرد رنگ دینے کے لیے انھوں نے امریکی سازش کا ایک بیانیہ گھڑا اور اسے اپنے حامیوں کے سامنے تواتر سے پیش کیا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ دو روز پہلے ایک آڈیو منظرِ عام پر آئی ہے جس میں عمران خان بطور وزیراعظم اپنے اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے گفتگو کررہے ہیں۔ یہ گفتگو اس مراسلے یا سائفر سے متعلق ہے جسے بنیاد بنا کر عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے امریکی سازش کا بیانیہ تشکیل دیا تھا۔
لیک ہونے والی آڈیو میں مبینہ طور پر عمران خان سائفر کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اس پر صرف کھیلنا ہے، کسی کا نام نہیں لینا، یہ کھیلنا ہے کہ اس کے اوپر ڈیٹ پہلے کی تھی۔ جواب میں اعظم خان کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ سائفر کے معاملے پر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں۔ عمران خان نے استفسار کیا کہ اس میں کون شریک ہوںگے۔ اعظم خان نے کہا کہ میٹنگ کریں، شاہ محمود قریشی اور فارن سیکرٹری کے ساتھ۔ شاہ محمود قریشی وہ لیٹر پڑھ کر سنائیں گے میں اسے منٹس میں شامل کر لوں گا پھر تجزیہ اپنی مرضی کے منٹس میں کرلیں گے۔ منٹس آفس کے ریکارڈ میں ہو پھر مرضی کا تجزیہ کرلیں گے۔ اعظم خان نے کہا کہ آپ کو یاد ہے آخر میں سفیر نے لکھا تھا کہ ڈیمارش کریں گے، جو بھی پڑھ کر سنائیں گے بس ان کا یہ کام ہوگا اسے کاپی میں بدل لیں گے، منٹس تو میرے ہاتھ میں ہیں اپنی مرضی سے ڈرافٹ کرلیں گے، تجزیہ یہ ہوگا کہ یہ دھمکی ہے، سفارتی زبان میں اسے دھمکی کہتے ہیں۔
یقینا اس بات کی غیر جانبدارانہ اور جامع تحقیقات ہونی چاہئیں کہ یہ آڈیو کون منظرِ عام پر لایا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ اگر یہ آڈیو اصلی ہے تو عمران خان اور اس معاملے میں شامل دیگر تمام لوگوں کی وجہ سے ملک کو بین الاقوامی سطح پر جو نقصان ہوا اس کا ازالہ کیسے ہوگا۔ چیئرمین پی ٹی آئی ایک جذباتی اور جوشیلے شخص کے طور پر شہرت رکھتے ہیں اور اپنے اسی مزاج کی وجہ سے وہ کئی بار ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو ان کے شایان شان نہیں ہوتیں۔ اب آڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ آڈیو وزیراعظم شہباز شریف وغیرہ نے لیک کی ہے، اچھا ہے سائفر بھی لیک کردیں تاکہ سب پتا چل جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میں ابھی تک تو کھیلا ہی نہیں ہوں، یہ ایکسپوز کریں گے تو کھیلوں گا اس کے اوپر۔ اسی حوالے سے فواد چودھری کا کہنا ہے کہ اب اس آڈیو کے بعد اور ضروری ہو چکا ہے کہ سپریم کورٹ اس کی تحقیقات کروائے۔
دوسری جانب، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ آڈیو کا فرانزک معائنہ کرانے کے لیے عمران خان سپریم کورٹ میں درخواست دیں تو ہم اس کی تائید کریں گے۔ ادھر، وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں بدھ کو ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اہم اجلاس میں بھی آڈیو لیکس کے معاملے پر غور کیا گیا۔ حساس اداروں کے سربراہان نے اجلاس کے دوران وزیراعظم ہاﺅس سمیت دیگر اہم مقامات کی سکیورٹی، سائبرسپیس اور اس سے متعلقہ دیگر پہلوو¿ں پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اجلاس میں مشاورت کے بعد سائبر سکیورٹی سے متعلق لیگل فریم ورک کی تیاری کا فیصلہ کیا گیا۔
ایوانِ وزیراعظم کی آڈیوز لیک ہونا بہت سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے لیکن اس صورتحال میں سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اس مسئلے کو قومی سلامتی سے جوڑ کر دیکھنے کی بجائے سیاسی معاملے کے طور پر لے کر چل رہی ہے۔ اس موقع پر سیاست دانوں کو انفرادی اور گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملکی مفادات کی فکر کرنا ہوگی اور اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ اگر سیاسی قیادت کی طرف سے ایسے معاملات پر مسلسل غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا رہا تو عوام اس سیاسی اور جمہوری نظام سے پوری طرح بیزار ہو جائیں گے۔