گڑیا کا گھر
بیل بجی ۔ جب میںنے دروازہ کھولا ۔۔ وہ مسکراتے ہوئئے اندر داخل ہو گئی ۔ بچے نانا نانی کہتے میری گود میں چڑھ گئے ۔میں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا ۔ وہ ہمیشہ اسی طرح تو آتی تھی ۔ نیلا ہینڈ بیگ ۔ بچوں کے کھلونوں کا گلابی بیگ ۔ دودھ کے ڈبے ۔گلابی لنچ باکسز۔ اس کے بکھرے بال ۔۔ سب کچھ ویسا ہی تو تھا ۔پھر وہ الگ سی کیوں دکھ رہی تھی ۔میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو اس نے نظریں چرا لیں۔ سارا دن یونہی بچوں کے ساتھ کھیل کود میں گزر گیا ۔۔ شام ہو گئی ۔ عموما شام ہوتے ہی وہ چلی جاتی تھی ۔۔ اس کی امی اس کے لئے کھانا رکھ رہی تھیں ۔میں نے پھر اس کی طرف دیکھا تو وہ بھی مجھے دیکھنے لگی ۔ اس کی آنکھوں کے کونے تر تھے ۔۔ جیسے وہ کہہ رہی ہو کہ بابا کچھ دیر اور رکنا چاہتی ہوں۔ آج یہیں رکنا چاہتی ہوں ۔۔
رات دس بجے امجد اسے لینے آ گئے ۔ اپنے ساتھ کیک اور پھل لائے تھے۔ دونوں میں کچھ دیر کھسر پھسر ہوئی ۔۔ جیسے وہ اسے منا رہے ہوں۔ میں دور بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا جب اس نے الوداع کہنے کے لئے میری طرف دیکھا ۔۔ میں نے کوئی سوال نہ کیا ۔ بس آنکھوں ہی آنکھوں میں کہا کہ جب بھی تھک جائو ۔ سستانا چاہو۔ کچھ کہنا چاہو۔۔ رونا چاہو ۔ تو اس گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔ وہ مسکرا دی ۔۔ اس کے جانے کے بعد میں نے دیکھا ۔اپنی ننھی بیٹی کی گڑیا وہ ساتھ لے گئی تھی اور گڑیا کاگھر یہیں چھوڑ گئی تھی ۔ میں نے وہ گھر شیشے کی الماری میں سنبھال کر رکھ دیا ۔