پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے ؟
ہائے مہنگائی ہائے مہنگائی ۔مہنگائی یہ وہ لفظ ہے جو ہر حکومتِ وقت پاکستانی عوام کو تحفے کے طور پر دیتی ہے اوریہ تحفہ ہر شہری تک پہنچتا ہے ۔مہنگائی صرف گھر سے نکل کر بازار جا کر خریداری پر ہی اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ گھرمیں آ نےوالے یوٹیلیٹی بلوں کے ذریعے بھی اثر انداز ہوتی ہے پاکستان میں مہنگائی ہماری زورمرہ زندگیوں میں ایسے داخل کر دی گئی ہے کہ یہ زہرِ قاتل بن چکی ہے مہنگائی کا واویلا ہر دور میں خوب مچتا ہے مگر ابھی پہلا شور ختم نہیں ہوتا تو مہنگائی کا ایک نیا طوفان اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ پاکستانیوں کی روزمرہ کی زندگی پر برپا ہوجاتا ہے ، عوام کچھ عرصہ واویلا کرکے اور سسک سسک کر اُسی مہنگائی کے عادی ہو کر زندگی کے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ تاریخ کے جھروکوں میں دیکھیں تو جنرل ایوب خان کے دور میں دو آنے چینی مہنگی ہوئی تھی تو عوام کے احتجاج نے حکومتِ وقت کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ بڑھی ہوئی قیمت واپس لے لیکن اُسکے بعدکے ادوار میںگو کہ مہنگائی کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی رہی، اورمہنگائی کا جن کبھی بوتل میں بند نہیں ہوا بلکہ ملک کے طول و عرض پر کسی نہ کسی طرح گھومتا رہا ہے۔قیام پاکستان کے بعد ہمیں اچھی معیشت نہیں ملی تھی بھارت کی جانب سے بھی معیشت کو چلانے کےلئے جو اثاثے ملنے تھے وہ بھی پورے نہ ملے اور جو ملے وہ بھی رو پیٹ کر ہی بھارت سے وصول کئے جس کے بعد پاکستانی معیشت چلانے والوں نے تو خلوص ِ دل سے ملک کےلئے دن رات محنت اور جذبے سے کام کیا اور معیشت کو کسی حد تک سنبھال لیالیکن جب ہم نے بیرونی امداد کے نام پر دنیا کے آگے ہاتھ پھیلائے تو پھر ہماری اَنا ،ہماری خودداری سب داو¿ پر لگ گئی جس کا خمیازہ آج پاکستانی عوام مہنگائی اور کئی معاشرتی و معاشی ناہمواریوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ورلڈ بنک ایشیائی بنک ،آئی ایم ایف ، امریکہ ،چین ،سعودیہ عرب جاپان اور ناجانے کون کون سے دنیا بھر کے ممالک اور ادارے ہیں جہاں سے پاکستانی حکمرانوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر قرضے نہ لئے ہوں لیکن بد قسمتی سے وہ بیرونی قرضے اور امداد جن مقاصد کےلئے لیے جاتے تھے وہ نہ تو ملک کی ترقی کے کام آئے نہ پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کے کام آئے ۔ مگراِن بیرونی قرضوں اور امداد سے بہت سے فقیر کھرب اور ارب پتی بن گئے ہیں ۔بیرونی ممالک اور ادارے(بشمول آئی ایم ایف) پاکستان کو قرضے کےلئے دی جانے والی رقم کی کوئی مانیٹرنگ نہیں کرتی کہ قرض والی رقم عوام کی فلاح و بہبود پر لگی ہے یا کس ترقیاتی منصوبوں پر لگی ہے؟؟ جبکہ قرضے کی رقم کا بیشتر حصہ سیاست دان اپنے کھاتوں میں ڈال لیتے ہیں اور قرض کی واپسی کی رقم کو عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال کر وصول کی جاتی ہے ۔
پاکستان میں 30 سالوں سے مہنگائی کی رفتارمیں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اِس مہنگائی کے طوفان کا ہر کسی کو سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پہلے پہل مہنگائی سالانہ بجٹ کے ساتھ ،پھر منی بجٹ کی اصطلاح قوم کے سامنے آئی ، پھرچھ ماہ ،تین ماہ ، ماہانہ ، پندرہ روز بعد ہونے لگی ،اور اب ہفتہ وار ،دن بدن اور اب صورتحال یہ ہو چلی ہے کہ دوکاندار خود کہہ دیتا ہے چیز لینی ہے تو ابھی لے لیں گھنٹے بعد قیمت بڑھ جائے تو پھر نہ کہنا۔ اِسکے ساتھ ساتھ ملک میں طبقات کی تقسیم کی لکیر واضح ہونے لگی اور شارٹ کٹ کے راستے بننے لگے یعنی رشوت عام ہونے لگی تو دوسری طرف لوٹ مار ،چوری ڈاکے اور امیر ہونے کا جنون پاکستانیوں کے سر پر سوار ہونے لگا، ہر آنےوالی نئی حکومت پچھلی حکومت کی کوتاہیوں کا ملبہ اپنے من مرضی کے نئے ٹیکس لگا کرعوام سے مہنگائی کی صورت میں لیتی ہے۔ اور پھر سُننا یہ پڑتا ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے جس کی وجہ سے مہنگائی ہوتی ہے تو دوسری طرف جب کوئی نیا ٹیکس کسی بھی شعبے پر لگاےا جاتا ہے تو اُسکے اثرات براہ راست عوام کی جیب پر ہی پڑتے ہے ۔یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ عوام حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرتے۔عوام حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ جب بھی آپ بازار سے کوئی بھی چیز خریدتے ہیں تو اُس چیز پر عائد ٹیکس کی رقم بھی اُسی چیز کی قیمت کےساتھ وصول کی جاتی ہے ۔اِسی طرح جب بجلی ، گیس یا کوئی اور سروس کا بل عوام کے ہاتھ میں آتا ہے اُس پرحکومتی ٹیکس بھی درج ہوتا ہے ۔پاکستان میں حکومت کی روایات کچھ عجیب قسم کی ہیں۔ یہاں حکمرانوں کو یہ پتہ ہے کہ کون سی اشیاءایسی ہیں جن کے ذریعے عوام سے پیسہ نکلوانا آسان ہے۔بجلی ، پٹرول اور ڈیزل یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں بالواسطہ یا بلاواسطہ جن کے اثرات عوام تک ہر حال میں پہنچتے ہیں ۔ صرف پٹرول اور ڈیزل پر چند روپوں کے اضافے کے ساتھ ہی استعمال کی ہر چیز کی قیمت بڑھتی ہے سو عوام تو ٹیکس دیتے ہیں مگر دوسری طرف عوام کو اُس ٹیکس کے بدلے وہ سہولیات میسر نہیں جو عوام کا حق ہے جبکہ عوام کے دیئے ہوئے ٹیکس کا پیسہ مراعات یافتہ طبقے یعنی حکمران اور ارکان ِ اسمبلی کو تاحیات مراعات اور سہولیات دینے کے کام آتا ہے تو اِسی طرح سرکاری اداروں کے افسران کو جو بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات دی جاتیں ہیں وہ بھی عوام ہی ٹیکس کا پیسہ ہوتا ہے۔ آئے روز جو نِت نئے ٹیکس عوام پر لگائے جاتے ہیں اُنکا فائدہ عوام کو ہو نہ ہو مگروزراءاور ا علیٰ عہدوں پر فائز افسران کے کام ضرور آتا ہے جویہ کہتے نہیں تھکے ہےں کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے ۔