بیمار کی مزاج پرسی
معاشرہ انسانوں کے مجموعے کا نام ہے لوگوں کا ایک دوسرے سے میل‘ باہم تقریبات میں شرکت‘ ایک دوسرے کے معاملات کی خبر گیری‘ خوشی اور غم میں ساتھ نبھانا انہیں ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ بھائی چارے کی فضا اور رواداری کا ماحول جنم لیتا ہے۔ رشتوں سے جڑے لوگ ہی ہیں جیسے عزیز و اقارب‘ دوست احباب ہمارے سماجی دائرہ کار میں مضبوط رشتے کے حامل ہیں زندگی کے سفر میں انسان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مشکل ایک ایسا مرحلہ بھی ہے جو نسبتاً زیادہ توجہ کاحامل ہے وہ مرحلہ ’’حالت مرض‘‘ کا ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ نے جہاں ہمیں صحت جیسی نعمت سے نوازا ہے وہاں ہمارا واسطہ بیماری سے بھی پڑتا ہے بیمار آدمی بہت جلد مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے ایسے میں مریض کے دوست احباب تیمارداری سے اس کے مزاج کو خوشگوار بنا دیتے ہیں۔ بیمار سے اس کا حال چال دریافت کرنا اس کی بیماری کی سنگینی کو اپنی گفتگو سے معمولی قرار دینا ہی ’’عیادت‘‘ کہلاتا ہے ۔
عیادت ہمارا معاشرتی اور اخلاقی فریضہ ہی نہیں بلکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے ایک انسان دوسرے انسان سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بیمار کی عیادت کا حکم دیا ہے اس لئے مریض کی تیمارداری کو مذہبی فریضہ سمجھ کر ادا کرنا چاہئے۔ قیامت والے دن اﷲ تعالیٰ انسان کو اپنے سامنے کھڑا کر کے فرمائے گا۔
’’اے ابن آدم میں بیمار پڑا‘ تو نے میری عیادت نہ کی‘‘ بندہ کہے گا کہ اے میرے رب تو ساری کائنات کا پروردگار ہے تو کیسے بیمار پڑ سکتا ہے اور پھر میں تیری عیادت کیسے کرتا؟‘‘ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار پڑا تو نے اس کی عیادت نہ کی اگر تو اس کی عیادت کو جاتا تو مجھ کو وہاں موجود پاتا‘‘۔
بیماری کی حالت میں انسان خدا کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے پھر وہ دنیا کو بھول کر خدا کی طرف زیادہ توجہ کرتا ہے وہ شفایاب ہو کر اپنی لغزشوں اور خطاؤں کو نہ دہرانے کا عہد کرتا ہے وہ اﷲ ہے جو انسان کو بیماری دیتا ہے اور اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ اس میں صبر کتنا ہے اور انسان کس حد تک جا سکتا ہے کہ انسان سماجی جانور ہے ایک دوسرے سے مربوط اور جڑا ہوا ہے مریض کی تیمارداری سے آپ کے خلوص‘ جذبات اور رشتے کی تجدید ہو گی کل کو خدانخواستہ آپ بھی کسی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ بھی آپ کی تیمارداری کے لئے آئے گا۔ بیماری کی حالت میں انسان اپنے آپ کو بہت ہی تنہا اور اکیلا محسوس کرتا ہے اس کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس کا حال پوچھنے والا ہو‘ کوئی اس کی مزاج پرسی کو آئے۔ مریض کی تیمارداری کو اپنا دینی فرض سمجھ کر ادا کریں۔ اس فرض کی ادائیگی میں ذرا سی بھی کوتاہی کا مظاہرہ نہ کریں۔ قیامت کے دن مریض کی تیمارداری نہ کرنے پر پکڑ ہو سکتی ہے اس لئے ہمیں اپنے قرب و جوار میں مرض میں مبتلا افراد کا علم ہونا چاہئے تاکہ بروقت عیادت کا فریضہ سرانجام دے سکیں۔ آخر میں مریض کے لئے دعا عرض کرنا چاہوں گی کہ جب بھی کسی بھی وقت اس کی ضرورت آن پہنچے تو ضرور پڑھ لیجئے گا انشاء اﷲ شفا ملے گی کیونکہ جان ہے توجہان ہے۔