پنشن کہانی
مہنگائی کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام اور خصوصاً ریٹائرڈ ملازمین سارا سال امید لگائے بیٹھے رہے کہ اس بجٹ میں لازماً معقول اضافہ پنشن میں ہو گا۔ لیکن IMF جیت گئی اور حکومت ہار گئی‘ خود اسمبلی ممبران کی مراعات و تنخواہوں کا مورال ہمیشہ ’’اپ‘‘ لیکن عوام کے لئے ’’شٹ اپ‘‘ ! اساتذہ اور دیگر محکمہ جات کے لوگوں نے جلسے جلوسوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے لیکن کسی نے کان پر جوں نہیں رینگ رہی۔ مہنگائی صرف خوردونوش تک محدود نہیں رہی بلکہ ادویات‘ پٹرول‘ یوٹیلٹی بلز سب کچھ اختیار سے باہر۔ ’’پرانی پنشن‘‘ میں اس مہنگے ترین نئے پاکستان‘‘ میں گزارا اک جبر مسلسل ہے۔ مجھے حیرانی بلکہ سکتہ ہوا کہ ’’EOBI پنشنرز‘‘ کی کل پنشن 6500 روپے ہے سپر پنشنرز سوسائٹی پاکستان PSP نے تحریک چلائی اور حاتم طائی صاحبان نے صرف 2000/- روپے اضافہ کر کے اسے 8500/- روپے کر کے احسان عظیم کر دیا۔ اس قدر لطف و کرم‘ بوجھ اٹھایا نہ گیا اور اس سے بھی بدتر حال ان پرائے ریٹائرڈ ملازمین کا ہے جو اب بھی ’’ریاست مدینہ‘‘ میں چند ہزار پنشن لے رہے ہیں اور ہر ماہ بینکوں/قومی بچت/ دیگر مالیتی اداروں کے باہر بزرگ خصوصاً سینئر سٹیزن جس طرح مسائل و مصائب کا شکار نظر آتے ہیں یہ بھی الگ کہانی ہے گو اب ڈائریکٹ اکاؤنٹ کے ذریعے معاملات بہتر ہوئے ہیں تاہم بینکوں میں ’’رش‘‘ ہونے کے سبب اور سہولیات کا فقدان پریشان کن ہے۔ پرانے پنشنرز ATM کارکردگی سے نالاں ہونے کی وجہ سے چیک کے ذریعے وصولی کو اعتماد کا درجہ دیتے ہیں۔ اسے بہتر کرنا ہو گا۔
پنشنرز جوں جوں عمر رسیدہ ہوتے جاتے ہیں بیماری بھی اسی قدر حملہ آور ہوتی ہے بہت سے لوگ نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں ادویات مہنگی ہی نہیں خاصی مہنگی ہو گئیں۔ میڈیکل الاؤنس کی مد میں پنشنرز کو مزید ریلیف دینا ہو گا۔ پرائیویٹ ڈاکٹرز کی فیس الامان و الحفیظ/ سرکاری ہسپتال کارکردگی صفر ‘ لے دے کے وہی Panadol اور ڈسپرین!
اب درد لادوا کا بھی کیجئے کوئی علاج
ورنہ تو جاں سے جائیں گے یہ باکمال لوگ
دوران سروس فوت ہو جانے والے ملازمین اگر 60 سال سے کم کے تھے تو نئے رولز کے مطابق انہیں اسی سیٹ پر OSD بنانے کے احکامات صادر ہونگے اور فیملی کو 60 سال کی مدت پوری ہونے تک تنخواہ ملتی رہے گی پنشن اس کے بعد شروع ہو گی۔ لیکن معلوم ہوا کہ پورے پنجاب میں اس طرح کے ان گنت کیسز تاحال لاہور افسران کے فیصلے کے منتظر‘ نہ تنخواہ نہ پنشن پورا خاندان پریشان و پشیمان۔ یہ اہم مسئلہ ہے حکومتی سطح پر فوری حل کیا جائے۔
فیس بک یا سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملا کہ پنشنرز کے مسائل و معاملات کو جب بھی بطور آرگنائزر پنشنرز سوسائٹی پاکستان PSP اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ نہ جانے کیوں کئی لوگوں کی جانب سے بے جا اور گستاخانہ حد تک تنقید دیکھنے کو ملی۔ ایسے کمنٹس کہ قلم لکھنے سے قاصر‘ معاشرتی رویے میں حسد‘ کینہ‘ بغض‘ عداوت‘ جیلسی اور صرف تنقید برائے تنقید‘ نہ کہ تدبیر برائے تعمیر جیسا رویہ جو افسوس ناک ہے۔ حالانکہ ملازمین کی اکثریت اپنی جوانی قوم و ملک کی خدمت میں گزار دیتی ہے سو اب بڑھاپے میں اپنی ہی تنخواہ سے جمع شدہ گریجویٹی‘ جی پی فنڈ سے جو ملا ہے وہ بچوں بچیوں کی شادی ‘ مکان کی تعمیر یا ریونیویشن پر خرچ ہو جاتا ہے اور پنشن بڑھاپے میں گزراوقات کا واحد ذریعہ۔ سو یہ معاشرتی رویہ پنشنرز کے لئے سخت تکلیف دہ ہے ۔
طنز کا پھول بھی پتھر کی طرح لگتا ہے مالیاتی اداروں خصوصاً بینک یا قومی بچت دفاتر کی جانب سے ہر سال "Physical Verification"یعنی آپ زندہ ہیں‘ کا سرٹیفکیٹ خود تصدیق کرا کے جمع کرانے کی روشنی بھی عجیب تر ہے۔ جب فرد/ پنشنر بنفس نفیس بینک میں حاضر ہے تو ایک کاغذ کا ٹکڑا جب تک جمع نہ ہو گا عارضی بند اکاؤنٹ نہیں کھولا جائے گا۔ من حیث القوم حقوق العباد یا انسانوں کی سہولت کے لئے قوانین میں ترمیم کب ہو گی‘ آسانیاں کیسے پیدا کی جائیں گی۔ ریٹائرڈ ملازمین کا ہاؤس رینٹ بھی بڑھایا جانا چاہئے کہ کرایوں کی مد میں ایک معقول رقم درکار ہوتی ہے جو اسی مجموعی پنشن سے پیٹ کاٹ کر ادا کی جاتی ہے۔