اس گھر کو آگ لگ گئی …
آئیے پڑھیں انا للہ و انا الیہ راجعون۔ پوچھیں گے نہیں کہ ایسا کیا ہو گیا کہ کالم کے شروع میں ہی ایسا دعائیہ کلمہ پڑھنے کا کہا جا رہا ہے جو اکثر و بیشتر کسی کے سفر آخرت کی خبر پر پڑھا جاتا ہے۔ اس سباق پر صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرونگا کہ جب آپ پورا کالم پڑھ لینگے تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں یہ دعائیہ کلمات خود بخود آپکی زبان سے ادا ہونگے۔ تاریخ کے بند کواڑ کھولیں تو پتہ چلتا ہے کہ قیام پاکستان کے دن سے ہی یہ میرے وطن عزیز کی بدنصیبی رہی ہے کہ جب بھی کبھی اس ملک کی ترقی کا کوئی سفر شروع ہوا ہے یا کسی بہتری کے امکانات نظر آنا شروع ہوئے ہیں اسی دم اوروں نے نہیں غیروں نے نہیں اپنوں نے ہی آگے بڑھ کر اسکی منزل کے آگے گڑھے کھودے ہیں۔ تاریخ اْٹھا کر دیکھ لیں پاکستان کے قیام کی پہلی دہائی کو ہی لے لیتے ہیں وہ ملک جسکے پاس اپنے وجود میں آنے کے بعد پہلے ہی مہینے اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں تھے تو 1948ء سے لیکر 1958ء تک جب وہ ترقی کے سفر پر نکلا تو ہر آنے والے دن یہاں ایک نئے بحران کی بنیاد رکھی جاتی ہے جس میں سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ برابر کی شرکت دار نظر آتی ہے۔ اس سے اگلی دہائی 1958ء سے 1968ء پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو نظر اتا ہے کہ اس دوران وطن عزیز میں بیشک ایک جابر ایک آمر ایک ڈکٹیٹر ایک فاشسٹ حکومت پر فائز نظر اتا ہے جو کسی صورت قابلِ ستائش نہیں کہلایا جا سکتا لیکن اس دوران بہت سے سیاسی بلنڈروں کے باوجود اسے اس وقت کی معاشی ٹیم کی بہتر حکمت عملی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے یا قدرت کی مہربانی کہ سب خامیوں کے باوجود ملک صنعتی انقلاب کی طرف گامزن ہوتا ہے اور اپنے خطے کی سب سے مضبوط اکانومی کے طور پر ابھرتا ہے کہ عین اس وقت اسے صرف ڈیڑھ آنا چینی مہنگی ہونے اور وہ اعلان تاشقند جسکا انکشاف آجتک ایک معمہ ہی رہا کا بہانہ تراش کر ایک ایسی کھائی ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے کہ جہاں سے نکلنا تو درکنار سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے اور اسکے ساتھ ہی تباہی کا ایک ایسا کھیل شروع ہوتا ہے جسکے نتیجے میں ملک دو لخت ہو جاتا ہے اور جہاں ایک دفعہ پھر سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ برابر کے شریک نظر اتے ہیں۔ رَب کریم پھر بھی اپنی رحمت کے دروازے بند نہیں کرتا اور وہ شخص جسکو کچھ تاریخ دان ملک توڑنے کے عمل میں برابر کا شریک ٹھہرانے میں بْخل سے کام نہیں لیتے وہی شخص اس شکستہ ریاست کو جسکا عالمی سطح پر سب سٹیک ہولڈرز یہ انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ اسکا وجود اب تحلیل ہوتا ہے یا کل وہ نہ صرف اسکو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرتا ہے بلکہ 1974ء میں وہ ملک کو اس مقام پر لے آتا ہے کہ مملکت پاکستان پوری اسلامی دنیا کی قیادت کرتا نظر اتا ہے اور ایک ایٹمی طاقت بننے کیلیئے اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ یہاں پر پھر وہی شعر " اس گھر کو اگ لگ گئی گھر کے چراغ سے" صادق نظر آتا ہے۔ کوئی اور نہیں اسی ملک کے چیدہ چیدہ نامور سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ ایک دفعہ پھر وہی گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اغیار کے ہاتھوں چابی والا کھلونا بنتے ہیں تو راقم کے ادنیٰ خیال میں یہ کہیں زیادہ مناسب اور معتبر ٹھہرے۔ ملکی سیاست کے اْفق پر نو ستارے اسلامی انقلاب اور نظام مصطفی کے نام پر ایسے اکھٹے ہوتے ہیں اور وہ تباہی لاتے ہیں جیسے دسمبر 2019ئ میں آسمانی کونسل پر نو سیارے ایک گھر میں اکٹھے ہو کر پوری دنیا میں کورونا کی وبائ لانے کا سبب گردانے جاتے ہیں۔ اس تحریک کے نتیجے میں نہ نظام مصطفی نافذ ہوتا ہے اور نہ ہی اسلامی انقلاب آتا ہے البتہ نام نہاد جہاد کی بنیاد پر تشدد کی ایک ایسی سوچ کا بیج بویا جاتا ہے اور اسکے ساتھ منشیات اور کلاشنکوف کا ایک ایسا نیا کلچر جنم لیتا ہے جس نے تناور ہو کر کوئی پھل تو نہیں دیا البتہ ایک ایسی اکاس بیل ضرور بن گیا ہے جس نے ہر شعبہ زندگی کو اپنی لپیٹ میں اسطرح لے لیا ہے کہ ہریالی نام کی کوئی چیز رہ ہی نہیں گئی۔ زمینی حقائق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اس دن سے لیکر آج دن تک پھر کوئی دن یا کوئی دور ایسا نہیں آیا جسکے متعلق ہم یہ کہہ سکیں کہ اس دوران ملک کی ترقی کے کوئی آثار پیدا ہوئے ہوں۔ بالغ نظری اور کسی بھی فریق کی طرفداری سے بالا ہو کر قیام پاکستان سے لیکر اج دن تک اس تمام عرصے کا اگر تجزیہ کیا جائے تو پھر یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ اس ملک میں اقتدار کے کھیل کے تمام کھلاڑیوں سٹیک ہولڈرز جنہیں آپ اشرافیہ کا نام بھی دے سکتے ہیں سب نے اپنے اپنے مفاد کی جنگ لڑی ہے اور کسی بھی فریق نے اپنی ذات سے باہر نکل کر ملک کی ترقی کا نہیں سوچا۔ راقم گڑھے مردے اْکھیڑنے نہیں چاہتا وہ اْن حالات اور ان اسباب کو تحریر میں لا کر ان احباب اور ان کرداروں کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتا چاہے وہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے متعلق ہوں یا 2014ء میں سی پیک کے منصوبے کے حوالے سے ہوں۔ راقم کیلئے تو لمحہ فکریہ آجکے حالات بن رہے ہیں جب عالمی حالات ایک نئی کروٹ لینے جا رہے ہیں مختلف ممالک کی نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں نئے اتحاد وجود میں آتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن ایک ہم ہیں کہ ہمارے بیانات اور عملی کرداروں سے پتہ چل رہا ہے کہ ہم ایک دفعہ پھر وہی شعر سچ ثابت کرنے جا رہے ہیں کہ
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
آخر کوئی یہ تو بتائے ہم کس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔