اسلامو فوبیا کا علاج
ہمارے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں کشمیری آزادی پسندوں کی کامیاب وکالت کرتے ہوئے جو برمحل تقریر فرمائی تھی وہ چونکہ حقیقت حال سے مناسبت رکھتی تھی۔ اس لئے کامیاب رہی تھی اور ان کالموں میں میں نے اس کی ستائش کی تھی ، اس لئے بعض دوستوں نے اسے خواہ مخواہ کی مدح سرائی کا نام دیکر ناپسند کیا تھا ، مگر میرا موقف یہ تھا کہ چونکہ یہ تقریر حسب موقع اور برمحل تھی اس لئے اسے ہم نے پسند کیا تھا ، چونکہ خر دماغ برہمن نے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مارتے ہوئے اپنے زعم میں بھارتی آئین میں موجود کشمیر کے متعلق خاص دفعہ کو منسوخ کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کا تازہ تازہ اعلان کیاتھا ، جو ظاہر ہے ایک احمقانہ اور بے موقع سوچ تھی اس لئے ہمارے وزیراعظم نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا اوردنیا کو یہ بتایا کہ دیکھ لو جو کشمیری آزادی پسند پون صدی سے اپنا مسلّم حق مانگ رہے ہیں اور خود اقوام متحدہ یہ حق دلانے کی ذمہ داری بھی قبول کر چکی ہے اور نسل پرست اور خر دماغ برہمن اسی کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ہونے کی رٹ لگا رہا ہے حالانکہ کشمیری اپنا تسلیم شدہ حق مانگ رہے ہیں اور حق تلفی پرکمربستہ یہ خر دماغ برہمن خود ہی اپنے اس نام نہاد اٹوٹ انگ پر ظالمانہ چوٹیں مار کر اسے ناکارہ بنانے میں میں بھی لگا ہوا ہے۔
بھئی! اگر یہ واقعی تمہارا انگ ہے تو اسے کوٹ کوٹ کر ناکارہ کیوں بنا رہے ہو؟
لیکن ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے تازہ خطاب میں ہمارے وزیراعظم نے ایک بہت اہم نقطہ اٹھایا ہے اور نقطہ (یا نکتہ؟) اسلامو فوبیا کی بیماری سے تعلق رکھتا ہے اور اس میں کشمیر کا مشرقی تیمور سے تقابل کیا گیا ہے یعنی یہ کہ مشرقی تیمور چونکہ ایک مسلمان ملک انڈونیشیا سے کاٹ کر ایک مشنری پادری کے دعوے کو فوراً قبول کرتے ہوئے ایک عیسائی ملک بنا کر دے دیا گیا ہے مگر کشمیر کی غالب اکثریت چونکہ مسلمان ہے جس کاحق نسل پرست برہمن نے ناجائز طور پر دبا رکھا ہے ، اس لئے تقریباً سو سال سے ان کی آواز نہ یورپ کوسنائی دیتی ہے جو علامہ محمد اقبال کے زمانے میں ہی پنجۂ یہود میں جکڑا ہوا تھا ، اور نہ یہ آواز یورپ کا مسیحی دم چھلا امریکہ بہادر سن رہا ہے جو آج بری طرح اسی پنجۂ یہود میں جکڑا ہوا ہے؟
اس کے ساتھ فلسطین اور عربی اسلامی ملک سوڈان کا جنوبی حصہ بھی شامل ہوتا ہے یہاں بھی فلسطینیوںکو محض مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے! لیکن اس کا اصل سبب اسلامو فوبیا کی بیماری ہے جو دراصل یہودی بخار ہے جس میں یورپ اوراس کا صلیبی دم چھلا انکل سام بھی مبتلا ہے! اور یہ بخار حقیقت میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہودی پنجہ ہے جس کے ذریعہ وہ دنیا کی بہترین پیداوار والی سرزمین ہتھیانے پر تلا ہوا ہے ، یوں لگتا ہے کہ مسلمان اور اسلامی دنیا کو ایک تجربہ گاہ بنا لیا گیا ہے جس پر ظلم اور بے انصافی کا ہر ہتھیار آزمایا جا رہاہے! بالکل جس طرح خونخوار اور ظالم حکمران غریب انسانوںکو قتل کروا کر اپنے نوجوانوںکو ظلم ڈھانے کا تجربہ کروایا کرتے تھے!
لیکن اب مسلمانوں ، خصوصاً ان کے لیڈروں کو ، زبان کھول کر اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ، اور اس کے لئے سب مسلمانوں کو جاگنا اور متحد ہونا پڑے گا ، کیونکہ عالمی صہیونیت جس طرح صلیب کے ناخدائوں کو اپنے پنجہ میں لیکر عالم اسلام پر ٹوٹ پڑنے کے لئے اکسا رہی ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ زور دار طریقے سے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لئے بھی سرگرم ہے اور اس کے لئے چودہ سو سالہ پرانا ہتھیار یعنی شیعہ سنی تصادم کے لئے میدان گرم کیا جا رہا ہے! لیکن شیعہ اور سنی مسلمانوںکو یہ یقین کر لینا چاہئے کہ جس طرح ان دو بھائیوں میں سے سنی کو شیعہ ختم کر سکے ہیں نہ اس کے الٹ ہو سکا ہے، البتہ پہلے بھی یہ دونوں بھائی دشمنوں کے سپاہی بنکر ایک دوسرے کو مارتے رہے ہیں اور اب بھی دشمن شیعہ سنی تصادم سے یہی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں! کشمیر اور فلسطین بھی مشرقی تیمور بن سکتے ہیں۔ بشرطیکہ مسلمان (شیعہ ۔ سنی) پہلے یہ ثابت کر دیں کہ وہ باہم لڑ کر مزید چودہ سو سال ضائع کرنا اب گوارا نہیںکریں گے بلکہ اب وہ جاگ کر ایک دوسرے میں اسلامی اخوت کو پہچانیں گے اور دشمن کے لئے کرایہ کے سپاہی بنکر ایک دوسرے کا گلا نہیں کاٹیں گے بلکہ ایک دوسرے کو اپنے اصل دشمن بچانے کا فریضہ پہچانیں گے اور بھائی اپنے بھائی کامحافظ اور فدائی بنکر عالمی صہیونیت کے لئے ایک زور دار چپت ثابت ہونگے! بس ضرورت ہے کہ سب مسلمان ہوش میں آئیں اور حقیقی دشمن کو پہچان کر اپنی حفاظت کاعہدکریں گے اور اسلامو فوبیا کا یہی علاج ہے!!