پولیس کلچر تبدیل کرنے کے بنیادی اصول
جرائم کو روکنے اور امن و امان قائم کرنے کے لئے کسی بھی ریاست میں پولیس کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے-گزشتہ 73 سال کے دوران ہم پولیس اصلاح کے لئے مختلف نوعیت کی تدابیر اختیار کرتے رہے ہیں- ہم کئی بار پولیس کی وردی تبدیل کر چکے ہیں - نئے ناموں کے ساتھ پولیس کے نئے یونٹ تشکیل دیتے رہے ہیں مگر ان تجربات کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا- 73 سال گزر جانے کے بعد بھی پولیس کلچر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی- اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہم نے آزادی کے تقاضوں کے مطابق پولیس کا نظام تبدیل نہ کیا- انگریزوں نے متحدہ ہندوستان میں پولیس کا نظام عوام کو غلام اور محکوم رکھنے کے لئے بنایا تھا یہ پولیس ہرگز عوام دوست نہیں تھی- قیام پاکستان کے بعد پولیس میں انقلابی اصلاحات ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے تھی مگر افسوس کہ کسی بھی حکمران نے اس کی جانب کوئی سنجیدہ توجہ نہ دی- وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب صورتحال حال یہ ہو چکی ہے کی پولیس حکمران اشرافیہ کے مفادات کی محافظ بن چکی ہے جسے عوام کے مفادات کا ہرگز کوئی خیال نہیں ہے-عوام کا پولیس پر اعتماد ہی اٹھ چکا ہے- یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مستقل اور پائیدار امن و امان قائم نہیں ہو سکا اور جرائم کی رفتار بھی روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے-قارئین یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ برطانیہ نے برطانوی پولیس نظام کے لئے جو اصول طے کیے تھے وہ ہندوستانی پولیس کے لیے پیش نظر نہ رکھے گئے کیونکہ برطانیہ ایک آزاد ملک تھا جب کہ ہندستان ایک غلام ملک تھا لہذا دونوں ملکوں کے پولیس نظاموں میں واضح فرق تھا-برطانیہ کی پولیس عوام دوست تھی جبکہ ہندوستان کی پولیس عوام کو غلام اور محکوم رکھنے کے لئے تھی-
سر رابرٹ پیل نے 1829میں لندن میٹرو پولیٹن پولیس کی تشکیل کے لئے جو بنیادی اصول طے کئے وہ آج بھی قابل عمل ہیں- پولیس کا بنیادی مشن جرائم کو روکنا اور امن قائم کرنا ہوتا ہے تاکہ ریاست کا نظم و نسق خوش اسلوبی کے ساتھ چلتا رہے-پولیس کی کامیابی اور اہلیت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ عوام اس کے اقدامات کی تعریف کریں-پولیس جب آئین اور قانون پر بلاتفریق بلاامتیاز عمل کرتی ہے تو اسے عوام کا اعتماد حاصل ہوتا ہے اور یہ عوامی اعتماد ہی پولیس کی کامیابی کا ضامن بنتا ہے-پولیس جب عوام پر ڈنڈے کی طاقت استعمال کرتی ہے تو اس کے اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں لہذا لازم ہے کہ پولیس تشدد کرنے سے گریز کرے اور عوام کو قائل کرنے پر زور دے-پولیس غیر جانبداری اور شفافیت کے ساتھ ہی عوام کی ہمدردی حاصل کر سکتی ہے-پولیس عوام کے ساتھ اس نوعیت کا رابطہ اور اشتراک رکھے کہ یوں محسوس ہو جیسے عوام پولیس ہیں اور پولیس عوام ہے- پولیس اپنے آئینی اور قانونی اختیارات کے اندر رہتے ہوئے کردار ادا کرے اور عدالتی اختیارات کو اپنے ہاتھ میں نہ لے-پولیس کی کامیابی کا معیار یہ ہے کہ کرائم ریٹ کنٹرول میں رہے اور امن وامان قائم رہے-یہ تھے وہ بنیادی اصول جن کی بنیاد پر لندن میٹروپولیٹن پولیس تشکیل دی گئی جو صدیاں گزرنے کے باوجود شاید آج بھی دنیا کی مثالی اور معیاری پولیس فورس ہے-جب کوئی بھی ریاست ان بنیادی اصولوں کو فراموش یا نظرانداز کر دیتی ہے تو پولیس کا نظام ناکام بن کر رہ جاتا ہے اور عوام کا اعتماد ہی پولیس فورس سے اٹھ جاتا ہے جس کی وجہ سے پولیس کو امن و امان قائم رکھنے کے لیے اور جرائم پر قابو پانے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے-
پاکستان میں پولیس کے اندر صاف شفاف اور موثر احتسابی نظام بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے-اختیار ذمہ داری اور احتساب ہی وہ بنیادی اصول ہیں جو کسی بھی ریاستی ادارے کی کامیابی کے ضامن ہوتے ہیں-افسوس ہم ابھی تک پولیس کے احتساب کا نظام بھی تشکیل نہیں دے سکے-پاکستان میں پولیس کی بھرتی بھی میرٹ پر نہیں کی جاتی- پولیس کی تاریخ شاہد ہے کہ ڈاکو اور مجرم سفارش کی بنیاد پر پولیس میں بھرتی ہو جاتے ہیں اور کئی بار پولیس کانسٹیبل خود ڈاکے اور چوری میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس ضمن میں اعلی عدالتوں کے پولیس کے بارے میں ریمارکس ریکارڈ میں موجود ہیں- پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پولیس کے بنیادی اصولوں کے مطابق میٹروپولیٹن پولیس ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جو خود مختار ہوں اور ان میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہ کی جا سکے اور نہ ہی طاقتور اور بااثر افراد پولیس کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لئے استعمال کر سکیں-پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی قوم سے یہ پختہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسی پولیس اصلاحات کریں گے جن کے نتیجے میں پولیس ایک مثالی ادارہ بن جائے گی اور اسے عوام کا اعتماد حاصل ہوجائے گا مگر افسوس دو سال گزر جانے کے باوجود وہ ابھی تک پولیس میں اصلاحات لانے کے سلسلے میں میں کامیاب ثابت نہیں ہوئے پنجاب میں گزشتہ دو سال کے دوران پانچ آئی جی پولیس تبدیل کیے گئے ہیں جس سے حکومت پنجاب کی کوتاہی ظاہر اور باہر ہو جاتی ہے- پاکستان میں جب تک پولیس کلچر تبدیل نہیں ہونا پاکستان کے گورننس کے مسائل حل نہیں کئے جا سکیں گے- محترم چوہدری عبدالرحمن سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج برائے ایلیمنٹری ٹیچرز کمالیہ نے انگلش میڈیم سٹوڈنٹس کے لئے انتہائی اعلیٰ اور انمول کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے "Spiritual melodies poems" کتاب میں شامل روحانی اور اخلاقی نظموں کے مطالعے کے بعد بچوں میں پاکستان اور انسانوں سے محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں- وہ والدین اور اساتذہ کا احترام کرنے لگتے ہیں- کتاب کا اسلوب بہت دلکش ہے-کتاب میں پاکستان قائد اعظم ماں باپ تعلیم برداشت دیانت استاد انصاف ڈسپلن اور مسلم اتحاد کے بارے میں بہت خوبصورت اور دلچسپ نظمیں شامل کی گئی ہیں- یہ کتاب توکل بک ڈپو کمالیہ سے دستیاب ہے-محترم چوھدری عبدالرحمن اس انمول کتاب کے لیے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
٭…٭…٭