بدھ ‘ 12 ؍ صفرالمظفر 1442ھ‘ 30؍ ستمبر 2020ء
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے فردجرم کے سوال پر آصف زرداری کا جواب
ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خوبی ہوتی ہے۔ آصف زرداری میں قوت برداشت کی خوبی موجود ہے اور وہ …؎
پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کے ناصر
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے
کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ جبھی تو مجاہد صحافت جناب مجیدنظامی نے انہیں حوصلے سے قیدوبند برداشت کرنے پر ’’مردحُر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ان کی تمام بُرائیاں اپنی جگہ‘ مگر ’’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا‘‘ والی بات اپنی جگہ۔ نڈر انسان ہونا بڑی خوبی ہے ورنہ لوگ تو کوئے ملامت کی طویل پرُخطر راہ دیکھ کر ہی گھبرا جاتے ہیں اور زنداں سے کوسوں دور بھاگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب ایک بار پھر آصف زرداری قانون کے شکنجے میں پھنستے نظر آتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے چہرے پر وہی روایتی سفاک مسکراہٹ نظر آرہی ہے۔ خاص طورپر اس وقت جب میڈیا والے سامنے ہوں تو ان کے چہرے پر چھائی یہ سفاک مسکراہٹ بے شمار سوالات چھوڑ جاتی ہے۔ بہرحال اب جب عدالت میں ان پر فردجرم عائد ہوئی تو انہوں نے سوال کرنے پر بڑی خوبصورتی سے اپنا جواب کچھ اس طرح دیا کہ سننے والے سر دھنتے رہ گئے۔ برسوں سے ایک جملہ مشہور ہے ’’ہتھکڑیاںہمارا زیور اور جیل ہماری سسرال ہے۔‘‘ خدا جانے یہ کس نے کہا تھا۔ آج بھی ہر سیاستدان یہی بات کہتا ہے مگر جیل کی شکل دیکھتے ہی ان کی سٹی گم ہو جاتی ہے۔ ہاں البتہ زرداری صاحب کہنے میں حق بجانب ہیں…؎
لے آئی پھر کہاں یہ قسمت کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
٭٭……٭٭
ارب پتی ٹرمپ نے 10 برس ہوئے کوئی ٹیکس نہیں دیا: نیویارک ٹائمز
اس حساب سے تو ٹرمپ پکے پاکستانی نکلے۔ یہ ہمارا نہیں امریکہ کا قصہ ہے۔ جہاں قدم قدم پر شکاری گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ذرا سی بھول چوک ہوئی‘ قانون کا پھندا آپ کو گرفت میں لینے کیلئے تیار ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہاں بھی ہماری طرح نت نئے طریقوں سے ٹیکس چوری اور دیگر جرائم عام ہیں۔ ہر خاص وعام اپنے اپنے حساب سے قانون کی ناک موڑ لیتا ہے۔ عدالت کی دیواروں میں نقب لگا لیتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ ویسے ہی اتھرے ہیں جو قانون اور تہذیب سے خود کو ماورا سمجھتے ہیں۔ ان کی زبان درازی ‘ ذہنی آوارگی کے قصے عام ہیں مگر امریکی معاشرے میں اس کا خاص اثر نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ جو امریکی اخبار وہ بھی کوئی عام نہیں‘ خاص اخبار نیویارک ٹائمز نے سٹوری چھاپی ہے۔ اس کا اثر امریکی ووٹروں پر ہو سکتا ہے کیونکہ ٹیکس کے معاملے میں وہ خاصے حساس ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ملک کا سارا نظام عوام کو تمام سہولتیں اس ٹیکس کی بدولت حاصل ہیں۔ اگر کوئی ٹیکس چوری کرے تو اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ صدر ٹرمپ تو ارب پتی‘ مالدار آسامی ہیں۔ کاروباری شخصیت ہیں۔ اب انہوں نے 10‘ 15 سالوں سے ٹیکس نہیں دیا۔ گرچہ ٹرمپ اسے جھوٹ کا پلندا قرار دے رہے ہیں مگر انتخابی مہم کے آخری دور میں یہ الزام ان کی لٹیا ڈبونے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ان کے مخالف حریف جو بائیڈن اس گرماگرم انکشاف سے خوب فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یوں یہ الزام اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو سکتا ہے۔
٭٭……٭٭
بھارت کی یورپی یونین میں باسمتی چاول کو انڈین پراڈکٹ قراردینے کی درخواست
باسمتی چاول کی یہ جنگ پاکستان اور بھارت کے درمیان کافی عرصہ سے چل رہی ہے۔ مگر ہمارے کرتا دھرتا بھنگ پی کر سوئے رہتے ہیں جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تب ہوش میں آتے ہیں۔ چاول عالمی منڈی میں فروخت کرنے والے تاجر عرصہ دراز سے چیخ رہے ہیں کہ خدارا عالمی منڈی میں باسمتی چاول کو خالصتاً پاکستانی برانڈ کی حیثیت دلوائی جائے۔ کیونکہ بھارت اپنے گھٹیا چاول کو باسمتی برانڈ بنانے کے چکر میں ہے۔ بھارتی تاجر سستے داموں پاکستانی باسمتی خرید کر سے اپنا نام دے کر عالمی منڈی خاص طور پر یورپی یونین میں فروخت کر کے خوب منافع کما رہے ہیں اب وہ اس دو نمبری کے بعد کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے باسمتی چاول کو انڈیا برانڈ قرار دیا جائے جبکہ اصل باسمتی خالصتاً پاکستانی چاول ہے۔ پاکستان کی پہچان ہے جو دنیا بھر میں عرب اور یورپی ممالک میں اپنی خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے بے مثال ہے۔بھارت کا باسمتی چاول پاکستانی باسمتی کے مقابلے میں کم کوالٹی کا ہے۔ اب اگر بھارت اپنی چال میں کامیاب ہوتا ہے تو عالمی منڈی کا سارا فائدہ سمیٹ لے گا پاکستان باسمتی چاول صرف اسکا متبادل کہلائے گا۔ اب وقت ہے بروقت کارروائی کا۔ورنہ خطرہ ہے جس طرح بھارت نے مکاری سے کشمیر کو اپنا صوبہ بنالیا کہیں وہ باسمتی چاول کو بھی انڈیا پراڈکٹ نہ بنا لے۔ امید ہے ہمارے تاجر اور وزارت تجارت اس معاملے میں فوری کارروائی کریں گے۔
٭٭……٭٭
شہبازشریف کی گرفتاری کیخلاف مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہوں‘ جلیل شرقپوری
ویسے تو قلا بازی لگانا ایک فن ہے۔ ہمارے بعض سیاستدان اس میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔ کل تک دیکھ لیں جلیل شرقپوری حکمرانوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ اپنی جماعت کی پالیسی کے خلاف بیان دے رہے تھے۔ اسکے ساتھ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ میری مرضی جو چاہے کروں۔ حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی حکومت میںٹھنی ہوئی ہے۔ مگر شرقپوری اپنی اٹھنی چلانے کے چکر میں لگ رہے ہیں۔ یوں وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اقتدار کے مزے بھی لوٹنا چاہتے تھے۔ خدا جانے یہ سیاست کا کون سا انداز ہے جو سب سے نرالہ ہے ۔ اب اگر پارٹی انکے خلاف ایکشن لیتی ہے تو موصوف کیا کرینگے۔ شاید اسی لیے حکمرانوں سے ملاقات کو بیلنس کرنے کیلئے اب موصوف گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتے ہوئے شہبازشریف کی گرفتاری پر پارٹی کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ ’’ہے ناں عجیب بات‘‘ خیر یہ سیاسی رنگارنگی ہے۔ یہاں بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مرحوم وائیں صاحب نے بھی درجنوں مسلم لیگ (ن) کے ارکا ن کو ابتلا کے دور میں ق لیگ کی جھولی میں گرتا دیکھا تھا۔ جلیل شرقپوری کچھ نیا نہیںکررہے۔